ادویات کی قیمتوں میں اضافہ: غریب مریضوں کے لیے نئی آزمائش
اداریہ — 31 اکتوبر 2025
ملک بھر میں جان بچانے والی ادویات کی قیمتوں میں 25 فیصد اضافہ عوام کے لیے کسی بڑے صدمے سے کم نہیں۔ پہلے ہی مہنگائی اور بے روزگاری کے ہاتھوں پسے ہوئے شہریوں کے لیے یہ اضافہ کسی جان لیوا دباؤ سے کم نہیں ہوگا۔ شوگر، بلڈ پریشر، دل، کینسر، گردوں اور سانس کے امراض میں مبتلا مریض زندگی بھر ان ادویات کے محتاج رہتے ہیں۔ ایسے میں قیمتوں کا یہ غیر معمولی اضافہ نہ صرف مریضوں بلکہ ان کے اہلِ خانہ کے لیے بھی شدید مشکلات کھڑی کر دے گا۔
فارماسیوٹیکل کمپنیوں کا مؤقف ہے کہ خام مال کی قیمتوں میں اضافہ اور پیداواری لاگت میں بڑھتی ہوئی پیچیدگیوں کے سبب وہ مجبوراً ادویات مہنگی کر رہی ہیں۔ بظاہر یہ جواز معقول محسوس ہوتا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ اس مہنگائی کا بوجھ ہر بار عام لوگوں کے کندھوں پر ہی کیوں ڈالا جاتا ہے؟ حکومت اور متعلقہ ادارے کیا صرف تماشائی بن کر صورتحال دیکھتے رہیں گے؟ صحت جیسا بنیادی حق اگر ایک عام شخص کی پہنچ سے باہر ہو جائے تو ریاست کی ذمہ داری کہاں کھڑی ہوتی ہے؟
یہ امر خوش آئند ضرور ہے کہ وزارتِ صحت نے ادویات کی قیمتوں کے تعین کے لیے فارماسیوٹیکل کمپنیوں سے مشاورت کا آغاز کیا ہے، تاہم محض گفتگو اور کمیٹیاں تشکیل دینا کافی نہیں ہوگا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ فوری اور عملی اقدامات کیے جائیں، جن کے ذریعے نہ صرف ادویات کی قیمتوں میں کمی ہو بلکہ آئندہ کسی بھی خود ساختہ اضافے کو روکنے کے لیے سخت پالیسی بھی وضع کی جائے۔ سرکاری اسپتالوں میں مفت ادویات کی فراہمی میں وسعت لانا بھی ناگزیر ہے، تاکہ غریب مریض عزت نفس مجروح کیے بغیر علاج کرا سکیں۔
حکومت کو یاد رکھنا چاہیے کہ صحت کی سہولیات مہیا کرنا اس کی اولین ذمہ داری ہے۔ اگر بروقت اور موثر اقدامات نہ کیے گئے تو یہ قیمتوں کا بحران ایک بڑے انسانی المیے کا سبب بن سکتا ہے۔ اب وقت ہے کہ ریاست عوام کے لیے ڈھال بنےنہ کہ فارماسیوٹیکل مافیاز کے مفادات کی محافظ۔
عوام کی صحت سے کوئی سمجھوتہ نہیں ہونا چاہیے۔

