نخلستان
تحریر: ریاض الحق بھٹی
الحمد للہ، بے لباس سیاسی ہٹ دھرمی کو آخرکار عدالت عظمیٰ نے قانون، ضابطہ اور اخلاق کی چادر ڈال کر سنبھال لیا اور اس طرح قوم ایک بڑے سانحے سے بچ گئی۔گذشتہ تین ماہ سے جاری اقتدار کی جنگ اب بڑی حد تک اپنے منطقی انجام کو پہنچ چکی ہے۔تاہم ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں۔ مرکز اور صوبوں میں غیر جمہوری اقدار پر مبنی حکومتیں بھی گرنے والی ہیں۔ا ن گرتی ہوئی سیاسی دیواروں کو عام انتخابات کے نتیجے میں آخری دھکا لگنے والا ہے۔
تبدیلی صرف پاکستان میں نہیں آ رہی بلکہ ہٹ دھرمی، ضد اور اناء کے دیوقامت بُت تیزی سے پاش پاش ہو رہے ہیں۔ہمارے لئے حیران کن خبرتو یہ تھی کہ چند ہفتے پہلے چین نے نئے بلاک کی تشکیل کے لئے سعودی عرب، ترکی، روس، بھارت اور ایران کو اپنی میزبانی میں بلایا لیکن پاکستان کا کہیں ذکر تک نہیں تھا۔ یہ وہی پاکستان ہے جو گذشتہ کئی دہائیوں سے چین کی اندھی محبت کو شہد سے زیادہ میٹھی، ہمالیہ سے زیادہ بلند اور سمندر سے زیادہ گہری کہتا رہا ہے۔ ہم اپنے اقتدار کے متوالوں کو نادان تو نہیں کہہ سکتے کیونکہ اقتدار پرستی اور مفاد پرستی میں اس ٹولے نے وطن فروشی میں بھی کبھی دیر نہیں کی۔ایک طرف تو سارے جہاں میں ہم بھیک مانگتے پھرتے ہیں اور دوسری طرف امریکہ کی بدترین غلامی کا بھی شکار ہیں جس کے لئے عملی اور عقلی طور پر ہمارا کوئی نام نہاد لیڈر عوام کو مطمئن نہیں کر سکا جبکہ امریکہ میں ہمارے منتخب جمہوری سربراہ کو عملی طور پر بے لباس کر کے واضع پیغام دیا گیا کہ ان کے ہاں ہماری اوقات کسی پالتو جانور سے زیادہ نہیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ڈو مور”Do More“ کا وظیفہ بھی جاری ہے اور ہم نہایت ادب سے اس کی تعمیل بھی کرتے چلے آ رہے ہیں۔
چشمِ فلک نے دو ہفتے پہلے سعودی عرب کے دورے پر آئے ہوئے امریکی صدر جوبائیڈن کا نہایت سرد مہری سے کیا جانے والا استقبال بھی دیکھا اور سعودی حکمرانوں کی طرف سے ایبسولیوٹلی ناٹ”Absolutely Not“بھی سنا۔اقوام عالم کے لئے عام طور پر اور امت مسلمہ کے لئے خاص طور پر یہ کھلا پیغام ہے کہ امت نے غلامی کی زنجیریں توڑنے کا واضع اشارہ دے دیا ہے۔دوسری طرف امارات میں روسی صدر پیوٹن کی غیر معمولی عزت افزائی بھی دنیا دیکھ رہی ہے۔حالات بتا رہے ہیں کہ ربِ عظیم اپنے خاص کرم سے مسلمانوں کی کھوئی ہوئی نشاط ثانیہ کو ایک بار پھر زند ہ و جاوید کر رہا ہے۔ یہ بات بھی باعثِ اطمینان ہے کہ امت محمدیہؐخواب غفلت سے بیدار ہو رہی ہے اور یہ بھی خوش خبری ہے کہ ایران میں 600بلین ڈالرز کی بڑی سرمایہ کاری ہونے جا رہی ہے۔ایسی خوش کن خبروں سے روح وبدن میں تازگی اور آسودگی کا احساس پیدا ہو رہا ہے۔ چند ہفتے پہلے ایرانی زعماء کی طرف سے انتہائی سستا تیل دیئے جانے کی نوید ملی تھی لیکن ہمارے غلام حکمرانوں نے اس پر توجہ نہ دی کیونکہ امریکہ کی طرف سے اجازت نہ ملی۔
نیوٹرل،نان نیوٹرل، اسٹیبلشمنٹ، عدلیہ، وردی والے، اچکن والے، جبہ و دستار والے سب کرداروں سے قوم اچھی طرح واقف ہو چکی ہے اور یہ بات اداروں کو بھی سمجھ آ رہی ہے کہ خشت و سنگ کی بنی ہوئی بلندو بالا اور مضبوط و جدید عمارتیں محض ادارے نہیں ہوتے بلکہ ان میں کام کرنے والے اعلیٰ و ادنیٰ لوگ ہی ادارے ہوتے ہیں جن کا عمل و کردار ہی ادارے کی توقیر یا تذلیل کا باعث بنتا ہے۔اب جبکہ پاکستان جاگ اٹھا ہے اور بے خبری کی لمبی نیند کے بعد قوم اٹھ کھڑی ہوئی ہے تو ہم تمام اداروں میں کام کرنے والے صاحبانِ اقتدار و انتظام سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ اقبال کے خواب اور قائد کی تعبیر والے پاکستان کی تعمیر نو میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں ورنہ یاد رکھیں کہ کوفے سے کربلا تک لکھی جانے والی تاریخ میں یقینا شکست حضرت حسینؓ کی ہوئی اور جیت یزید کی۔ لیکن گذشتہ پندرہ صدیوں سے یزید کی جیت پر دنیا لعنت بھیج رہی ہے اور حضرت حسینؓ کی شکست زندگی کی صورت قیامت تک زندہ ہے۔اب فیصلہ ہم نے کرنا ہے کہ ہم حسینی بن کر یا یزیدی بن کر جینا چاہتے ہیں۔
حال ہی میں ہمارے ازلی دشمن بھارت کا مضبوط جمہوری چہرہ بھی دنیا نے دیکھا ہے۔جہاں تمام تر اخلاقی،سماجی اور سفارتی بدعملیوں کے باوجود ایک معلمہ”ڈروپدی مرمو“ کو مسندِ صدارت پر بٹھا کر بڑا مثبت پیغام دیا گیا ہے جبکہ ہمارے نادان حکمرانوں کو اپنے وسیع محلات وجائیدادیں بنانے اور سرمایہ اکٹھا کرنے کے علاوہ کچھ نہیں آتا۔دنیا جانتی ہے کہ کوئی انسان جائیداد و دولت کی بنیاد پر بڑا نہیں ہوتابلکہ عمل اور خدمت کی بنیاد پر ہی فرد اور قوم ترقی کرتی ہے۔محض ایک ارب ڈالرز کی خاطرعالمی مالیاتی اداروں کی ظالمانہ اور سفاکانہ شرائط ماننا پڑتی ہیں اور ان شرائط کے باوجود دیا گیا تمام تر قرضہ نہایت چالاکی سے ان کی ہی جیبوں میں واپس چلا جاتا ہے۔قوم اب یہ بھی جان چکی ہے کہ سمندر پارمحب وطن پاکستانیوں نے گذشتہ پانچ سالوں کے دوران تقریباً 150 ارب ڈالرز پاکستان بھیجے جس کے بدلے میں ہمارے ذہنی غلام حکمرانوں نے انہیں ووٹ کا حق بھی نہیں دیاجبکہ اسی عرصے میں صرف 47ارب ڈالرز کے قرضوں کی خاطر ہم نے کس کس چوکھٹ پر سر نہیں جھکایا۔یہ بھی یاد رکھیں کہ ہماری اس موجودہ صورتحال کے پیش نظر ان پاکستانی بھائیوں نے وطن عزیز سے تقریباً 170ارب ڈالرز واپس لے لیا ہے۔یوں خیرات پر پلنے والی حکومت کے پاس صرف یہ بچا ہے کہ:
دل کے ارماں آنسوؤں میں بہہ گئے
ہم وفا کر کے بھی تنہا رہ گئے
تنہا تو رہنا ہی تھا کہ خیرات سے نہ تو فرد نہ ہی خاندان اورنہ ہی قوم خوشحال ہو سکتی ہے۔ہم آپ کو ایک تصویر کی کہانی سناتے ہیں۔یہ بنگلہ دیش کی 22لاکھ خواتین کی تصویر ہے جو گارمنٹس انڈسٹری میں کام کر کے باعزت روزگار کما رہی ہیں اور ملک کو بھی کثیرزر مبادلہ مل رہا ہے اور یہ دوسری تصویر ہے جس میں 57لاکھ پاکستانی خواتین کو مختلف امدادی پیکجز کے ذریعے بھیک کی رقم لیتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔سب جانتے ہیں کہ بھکاری کبھی خوشحال باعزت و باوقار نہیں ہو سکتے۔قوم کو یہ اندازہ کر لینا چاہئے کہ ایسے جعلی ہمدرداپنی ذہانت اور چالاکی سے کھربوں روپے باہر منتقل کر چکے ہیں اور ان کی اولادیں بھی باہر ہیں جبکہ قوم کو خیرات و امداد کی میٹھی اورنشہ آور گولیاں کھلا کر سلایا جا رہا ہے۔
ابھی بہت کچھ ہونے والا ہے،عوام کے خون پسینے کی دولت پر پلنے والے اداروں اور حکمرانوں کو اپنا چلن بدلنا ہو گا ورنہ قومی خزانے سے دولت لوٹ کر بیرون ملک خریدے جانے والے جزیرے، محلات اور فلیٹ سب بے کار ہو جائیں گے۔
ہماری استدعا ہے کہ خدا کے لئے اس پاک دھرتی کو اجاڑنے کی بجائے یہاں محبت، امن اور سلامتی کے پھول کھلائے جائیں جہاں ہر فرد سکھ،چین، عزت اور سکون کی زندگی بسر کرے۔پھر دنیا دیکھے کہ یہ جنت نظیر ملک اقوام عالم میں امن وسلامتی اور خوشحالی کی بے مثال سرزمین ہے۔یہ فیصلہ ہم نے کرنا ہے کہ اس وطن کو نخلستان بنانا ہے یا پھرکچھ اور۔جیوے پاکستان جیوے پاکستانی عوام۔