اتوار کو عدم اعتماد پر ووٹنگ میں ملکی سمت کا فیصلہ ہوگا: وزیراعظم کا مستعفی ہونے سے انکار, قوم سے خطاب میں مراسلے والے ملک کا ذکر کرتے ہوئے امریکا کا نام لے لیا
وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہےکہ اتوار کو تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ میں ملکی سمت کا فیصلہ ہوگا، استعفیٰ نہیں دوں گا، آخری گیند تک مقابلہ کروں گا۔
وزیراعظم عمران خان نے قوم سے خطاب میں مراسلے والے ملک کا ذکر کرتے ہوئے ’امریکا‘ کا نام لے لیا۔
وزیراعظم عمران خان نے قوم سے براہ راست خطاب کیا اور اس دوران انہوں نے خارجہ پالیسی پر بات کی۔
وزیراعظم نے قوم سے خطاب میں مراسلے والے ملک کا ذکر کرتے ہوئے ’امریکا‘ کا نام لیا اور پھر غلطی کا احساس ہونے پر رکے اور کہا کہ نہیں باہر سے ملک کا نام مطلب کسی اور ملک سے باہر سے۔
مراسلے والے ملک کا ذکر کرتے ہوئے وزیراعظم کا کہنا تھاکہ ’ابھی ہمیں 8 مارچ کو یا اس سے پہلے 7 مارچ کو ہمیں امریکا نے (نہیں باہر سے ملک کا نام مطلب کسی اور ملک سے باہر سے) میسج آتی ہے، میں یہ اسی لیے آپ کے سامنے میسج کی بات کرنا چاہ رہا ہوں‘۔
قوم سے اپنے خطاب میں وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ اتوار کو اس ملک کا فیصلہ ہونے لگا ہے کہ ملک کس طرف جائے گا، قوم نے فیصلہ ک ہے کہ ملک کدھر جائےگا، مجھے کہا گیا کہ استعفیٰ دے دیں، میں آخری گیند تک مقابلہ کرتا ہوں ، ہار نہیں مانوں گا، دیکھنا چاہتا ہوں کہ کون جا کر اپنے ضمیرکا فیصلہ کرتا ہے، اگر کسی کو ضمیر کے مطابق فیصلہ کرنا ہوتا تو استعفیٰ دیتے، ہم نوجوانوں کو آج کیا پیغام دے رہے ہیں، الٹا بھی لٹک جائیں تو کوئی نہیں مانےگا کہ یہ تین لوگ کوئی نظریاتی ہیں۔
منحرف ارکان کو وزیراعظم کا کہنا تھاکہ ہمیشہ کیلئے آپ پر مہر لگ جانی ہے، نا لوگوں نے آپ کو معاف کرنا ہے اور نہ بھولنا ہے، نہ ان کو معاف کرنا ہے جو ہینڈل کررہے ہیں، برصغیر کی تاریخ کیا ہے؟ میر صادق اور میر جعفر کون تھے جنہوں نے انگریزوں کے ساتھ مل کر اپنی قوم کو غلام بنایا، یہ موجودہ دور کے میر جعفر اور میر صادق ہیں، آنے والی نسلیں معاف نہیں کریں گی، اگر آپ کا خیال ہے کہ اس سازش کو کامیاب ہونے دیں تو سامنے کھڑا ہوں گا، مجھے امید ہے کہ سندھ ہاؤس میں موجود ہمارے لوگ ضمیر کے مطابق فیصلہ کریں گے ورنہ قوم آپ کو معاف نہیں کرے گی، میں خاموش نہیں بیٹھوں گا، مجھے پرچی یا وراثت میں وزارت نہیں ملی، میں جدوجہد کرکے یہاں پہنچا ہوں، مقابلہ کروں گا۔
انہوں نے کہا کہ میں کسی کی مخالفت نہیں کرتا لیکن میری اولین ترجیح 22 کروڑ عوام ہیں، ان کے لیے آزاد خارجہ پالیسی بناؤں گا، مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کے اقتدار میں آنے کا مقصد کچھ اور ہے، ان کے بھائی (نواز شریف) تو بات ہی نہیں کرسکتے۔
وزیر اعظم نے کہا کہ ’مراسلے پر شک کیا گیا، میں نے کابینہ کے سامنے مراسلہ رکھا، اس کے بعد قومی سلامتی کمیٹی اور پھر صحافیوں کے سامنے پیش کیا، یہ مراسلہ اکسانے کے لیے نہیں ہے، اس ڈاکیومنٹ میں خطرناک الفاظ لکھے ہیں۔
عمران خان نے کہا کہ تنقید کی جاتی ہے کہ ’ملک کے حالات ساڑھے تین سال میں کیا سے کیا ہوگئے؟ لیکن متحدہ اپوزیشن تو 30 برس سے برسراقتدار رہی، مجھے لوگوں نے کہا کہ میں استعفیٰ دے دوں لیکن واضح کردینا چاہتا ہوں کہ آخر گیند تک مقابلہ کروں گا، تحریک عدم اعتماد کا جو بھی نتیجہ ہوگا اس کے بعد میں اور بھی تگڑا ہوجاؤں گا‘۔
انہوں نے کہا کہ نوجوانوں کا کیا پیغام مل رہا ہے، کون تسلیم کررہا ہے کہ شہباز شریف، آصف علی زرداری، فضل الرحمن نظریاتی لوگ ہیں، یہ سب لوگ اپنے ضمیراور ملک کا سودا کررہے ہیں، جو لوگ اپنا سودا کرکے متحدہ اپویشن کی صفوں میں بیٹھے ہیں وہ یاد رکھیں عوام انہیں کبھی نہیں بھولے گی، آپ بیرون ملک سازش کا حصہ بنے ہیں، کوئی بھی آپ کو معاف نہیں کرے گا۔
وزیرا عظم عمران خان نے کہا کہ یہ تینوں اس دور کے میر جعفر اور میر صادق ہیں، ساری زندگی قوم بھولے گی نہیں، یہ وہ کرنے جارہے ہیں کہ آنے والی نسلیں انہیں معاف نہیں کریں گے، سازش کے خلاف کھڑا رہوں گا۔
وزیراعظم نے کہا کہ میں نے اپنے دور میں کوئی فیکٹری نہیں بنائی جب کہ نواز شریف نے اٹھارہ فیکٹریاں بنالیں، میں اپنے گھر میں رہوں گا لیکن یاد رہے کہ اس قوم سے غداری ہورہی ہے، یہ قوم کبھی آپ کو اور آپ کے پیچھے لوگوں کو معاف نہیں کرے گی، میں چپ کرکے نہیں بیٹھ جاؤں گا، ہرگز استعفی نہیں دوں گا بلکہ اس سازش کا آخری دم تک مقابلہ کروں گا۔
وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ ایک مسلمان قوم غلام قوم نہیں بن سکتی، پیسے اور خوف کی غلامی شرک کے مترادف ہے، یہ سب ہمارے منشور میں شامل ہیں، اگر ایمان نہیں ہوتا تو سیاست میں نہیں ہوتا، ہمارے ملک پر بیرونی طاقتیں اثرانداز ہوتی ہیں، میں نے فیصلہ کیا کہ اقتدار میں آیا تو ہمارے ملک کی خارجہ پالیسی ایک آزاد پالیسی ہوگی جس کا تعلق پاکستانیوں سے ہوگا وہ پالیسی جو ہمارے مفادات پر مبنی ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہمیں اسی کمرے میں کہا گیا کہ امریکا کی حمایت نہیں کی تو وہ زخمی ریچھ کی مانند ہمیں ہی نہ مار دے، افغان جہاد کے دو سال بعد ہی امریکا نے ہم پر پابندیاں لگادیں، نائن الیون کے بعد واشنگٹن کو ہماری حمایت کی ضرورت پڑ گئی اور حمایت کے نتیجے میں 80 ہزار پاکستانیوں نے اپنی جانوں کی قربانی دی، کیا کسی نیٹو ملک نے اتنی جانیں قربان کیں؟
انہوں نے کہا کہ نائن الیون میں کوئی پاکستانی ملوث نہیں تھا اس کے باوجود ہم اس جنگ میں شامل ہوئے، قبائلی علاقوں میں شادیوں، مدرسوں اور دیگر اجتماعات پر ڈرون حملوں میں ہزاروں لوگ مارے گئے، کون سے قانون میں لکھا ہے کہ آپ کا اپنا جس کے لیے آپ جنگ لڑیں وہ آپ پر ہی ڈرون حملے کرے۔
عمران خان نے کہا کہ کسی آزاد ملک کے لیے جس طرح کا پیغام (مراسلہ) آیا وہ وزیراعظم کے خلاف نہیں بلکہ پوری قوم کے خلاف ہے، انہیں پہلے سے پتا تھا کہ عدم اعتماد کی تحریک آنے والی ہے، دراصل اپوزیشن پہلے سے ہی باہر کے لوگوں سے رابطے تھی، یہ لوگ صرف عمران خان کے خلاف ہیں، کہا جاتا ہے کہ اگر عمران خان چلا جائے تو پاکستان کو معاف کردیں گے، اگر یہ تحریک فیل ہوجاتی ہے تو پاکستان کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
وزیراعظم نے کہا کہ یہ آفیشل ڈاکیو منٹ ہے جس میں ایک سفیر نے کہا کہ اگر عمران خان وزیراعظم رہتا ہے تو آپ سے تعلقات خراب ہوں گے اور ملک کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا، قوم سے سوال ہے کہ ہم 22 کروڑ نفوس پر مشتمل قوم کی کیا یہ حیثیت ہے کہ بغیر وجہ بتائے وہ ہم پر فیصلے مسلط کردے؟ اور وجہ شاید یہ بتائے کہ روس جانے کا فیصلہ غلط ہے، روس جانے کا فیصلہ دراصل عسکری اور وزارت خارجہ کی مشاورت سے کیا گیا۔
وزیراعظم نے کہا کہ سب سے زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ ان کے رابطے یہاں موجود وفادار غلاموں سے ہیں، وہ چاہ رہا ہے کہ وہ آجائیں جن کے اوپر اربوں مالیت کی کرپشن کے الزامات ہیں، کیا ہم اپنے ملک میں اس طرح کے لوگوں کی قیادت آنے دیں گے؟
عمران خان نے کہا کہ ’دوسرے ممالک چھوٹی سی کرپشن پر اپنے بڑے بڑے وزرا کو نکال دیتے ہیں لیکن اب وہ لوگ یہاں پر موجود لوگوں کو کہہ رہے ہیں کہ عمران خان کو نکالو، بیرون ملک کی ایجنسیوں کو ہمارے تمام سیاست دانوں کے اثاثوں کے بارے میں معلومات ہیں، انہیں معلوم ہے کہ یہاں کتنی کرپشن کرتے رہے ہیں‘۔
وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ سب سے اہم بات یہ ہےکہ تین اسٹوجز کے ان سے رابطے ہیں۔ وزیراعظم نے اعتراف کیا کہ بدقسمتی سے ہمارے قانونی نظام میں طاقتوروں کو کٹھہرے میں لانے کی سکت نہیں ہے، بیرون ملک ان کی کرپشن کے خلاف خبریں چھپی ہوئی ہیں، اپنے ملک کے لیے اُن کا اخلاقی معیار یہ ہےکہ چھوٹی سی چیز پر کسی بھی عہدیدار کو نکال دیتے ہیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ انٹیلی جنس ایجنسیوں کو سب کے بیک گراؤنڈ کا پتہ ہوتا ہے، ان لیڈروں کے بارے میں انہیں سب پتہ ہےکہ ان کی جائیدادیں کہاں ہیں، یہ تین لوگ انہیں پسند آگئے ہیں، دو پارٹیوں کے دور حکومت میں 10 سال کے دوران 400 ڈرون حملے ہوئے انہوں نے کبھی مذمت تک نہیں کی، اس لیے یہ انہیں پسند ہیں، وکی لیکس میں مولانا فضل الرحمان کے بارے میں انکشاف ہوا کہ پاکستان میں امریکی سفیر کو مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ مجھے اقتدار دیں میں بھی وہی کروں گا جو دیگر کرتے ہیں، نواز شریف مودی سے چھپ چھپ کر ملتے تھے، شادیوں پر دعوتیں دیتے تھے، آصف زرداری نے کہا کہ فکر نہ کریں ڈرون حملے میں بے قصور لوگ مارے جاتے ہیں، شہباز شریف کے مطابق عمران خان نے ایبسلوٹلی ناٹ کہہ کر بڑی غلطی کی، ہم امن میں آپ کے ساتھ ہیں جنگ میں نہیں، ہم ایک آزاد خارجہ پالیسی چاہتے ہیں