تحفظ ناموس رسالت اور یورپی یونین کی اشتعال انگیز قرارداد

Hameed-ul-Allah-Khan-Aziz

تحریر وتحقیق:حمیداللہ خان عزیز

وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا
روح محمد اس کے بدن سے نکال دو

چند ماہ قبل یورپی یونین کے چند سینئر ممبران نے یورپی پارلیمنٹ میں ایک قرار داد پیش کی،جس میں حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا گیا کہ قانون ناموس رسالت کی دفعات 295 سی اور بی کو ختم کر دیا جائے اور رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کے جتنے سزا یافتہ مجرم قید میں ہیں،ان کو رہا کیا جائے،کیوں کہ یہ سزائیں انسانی حقوق کے خلاف ہیں۔انہوں نے اس قرارداد کے ذریعے مطالبہ کیا کہ شفقت مسیح اور شگفتہ کوثر مسیح کو رہا کیا جائے،قرار داد میں پاکستانی حکومت سے یہ مطالبہ بھی کیا گیا کہ انسداد دہشت گردی کے 1997ء کے قانون میں ترمیم کی جائے تاکہ توہین رسالت کے مقدمات کی سماعت انسداد دہشت گردی کی کورٹس میں نہ کی جاسکے اور گستاخان رسول کو اپنے مقدمات میں ضمانت مل سکے۔

یورپی پارلیمنٹ میں پیش کی گئی اس قرارداد کے حق میں 662 اور مخالفت میں صرف3 ووٹ ڈالے گئے۔یورپی پارلیمنٹ میں ناموس رسالت کے خلاف بھاری اکثریت سے پاس ہونے والی اس قرارداد سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ یورپ اور مغرب اسلام کے بارے میں کس قدر نفرت اور گھٹیا سوچ رکھتا ہے،انہیں مسلمانوں کے محسن اعظم اور مربی کی توہین سے کوئی غرض نہیں،بلکہ وہ ان گستاخان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سزا کو انسانی حققوق کے خلاف سمجھتے ہیں۔یہ قرار داد سویڈن سے تعلق رکھنے والے یورپی پارلیمنٹ کے رکن چارلی دیمر نے مرتب کی،یہ وہ شخص ہے جس کی اسلام اور پیغمبر اسلام کے خلاف بغض اور دشمنی ڈھکی چھپی نہیں ہے۔

ان مطالبات کے سامنے آنے کے بعد ہماری حکومت نے شفقت مسیح اور شگفتہ کوثرمسیح کو رہا کر دیا۔اس سے قبل بھی یورپی یونین کے نمائندہ وفد نے پاکستان آکر موجودہ حکومت پر دباو ڈالا تھا اور ایک عیسائی خاتون آسیہ مسیح کو رہا کروا کر لے گئے تھے۔جب کہ آسیہ مسیح کو سیشن کورٹ اور ہائی کورٹ سے سزائے موت سنائی جا چکی تھی۔پاکستان کی”انصاف پسند” حکومت،اس غیر ملکی دباو کو برداشت نہ کر سکی اور سابقہ چیف جسٹس،ثاقب نثار کے ذریعے اس کو بری کروا کر بیرون ملک بھجوا دیا۔جب ہمارے وزیر اعظم صاحب امریکہ کے دورے پر گئے تو وہاں صحافیوں کے ساتھ سوال جواب کے دوران امریکی صدر ٹرمپ کی موجودگی میں وزیر اعظم صاحب نے برملا اعتراف کیا کہ ہم نے عوام پاکستان اور دینی جماعتوں کے مطالبات کے برخلاف عمل کرتے ہوئے سزائے موت کی قیدی آسیہ مسیح کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے سے نکال کر بیرون ملک روانہ کیا۔

بلاشبہ موجودہ عالمی سیاسی حالات سے یہ بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے،کہ اس وقت اسلام ہی یورپ کا اصل نشانہ ہے،اور اسلامی ممالک کے حکمران سخت غفلت کا شکار ہیں۔تاریخ اس پر شاہد ہے۔اس کی ایک مثال "وقف املاک بورڈ” ہے،جو مغرب کے دباو پر موجودہ حکومت نے قومی اسمبلی سے منظور کیا ہے۔اس کے بعد گھریلو تشدد بل لایا گیا۔

ہمارے خیال میں یورپی پارلیمنٹ کی یہ قرار داد پاکستان کے اندرونی معاملات میں واضح مداخلت ہے۔جب کہ فرانس جیسے ملک میں اسلام اور مسلمانوں پر جو پے در پے حملے کیے گئے،ان سے چشم پوشی اختیار کی گئی۔حکومت پاکستان کو فی الفور ردعمل یہ دینا چاہیے تھا کہ ناموس رسالت کے مسئلے کو او آئی سی کے پلیٹ فارم سے اٹھاتے اور یورپی یونین سیمت پورے مغرب کو یہ پیغام دیتے کہ مسلم ممالک ان قراردادوں کو مذموم مقاصد سمیت مسترد کرتے ہیں،اور یہ بتا دینا چاہتے ہیں کہ ناموس رسالت کا مسئلہ ہر کلمہ گو مسلمان کے ایمان کا مسئلہ ہے،یہ کسی ایک ملک یا خطے کا مسئلہ نہیں،بلکہ دنیا بھر میں بسنے والے کم وبیش دو ارب مسلمانوں کے بنیادی ایمان اور عقیدے کا معاملہ ہے۔ہم مسلمان ہر مشکل سے مشکل فیصلے کو قبول کر سکتے ہیں،لیکن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت وناموس کے تحفظ کے لئے بنائے گئے قوانین میں کوئی ترمیم یا رد وبدل قبول نہیں کر سکتے۔یورپین یونین کی اس قرار داد نے دنیا بھر کے مسلمانوں کی دل آزاری کی ہے،بلکہ یہ قرارداد گستاخان رسول کو شہ دینے کے مترادف ہے۔

یورپی ممالک کی جانب سے توہین رسالت کے معاملے پر نہایت نامعقول اور تعصب پر مبنی قراردادوں اور موقف اختیار کرنے پر مسلم حکمرانوں کی خاموش انتہائی افسوس ناک ہے۔جب کہ اس مسئلے پر خاموشی اختیار کرنا ایمان کے منافی ہے۔جب کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا استہزاء کرنے والوں کے بارے میں تو اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا ہے۔

انا کفینک المستھزئین (الحجر)
"جو لوگ آپ کا استھزاء کرتے ہیں،ان کی سزا کے لئے ہم کافی ہیں۔"

اس آیت کی تفسیر میں علامہ عبدالرحمان بن ناصر السعدی رحمہ اللہ”تفسیر السعدی” میں لکھتے ہیں۔

بک وبما جئت بہ وھذا وعد من اللہ لرسولہ،ان لا یضرہ المستھزون ،وان یکفیہ اللہ ایاھم بماشاء من انواع العقوبة وقد فعل تعالی فانہ ما تظاہر احد بالاستھزاء برسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وبما جاء الا اھلکہ اللہ وقتلہ شر قتلہ

یعنی جو لوگ آپ کا اور اس حق کا جسے لے کر آپ مبعوث ہوئے ہیں،تمسخر اڑاتے ہیں،اللہ تعالی کا اپنے رسول سے یہ وعدہ ہے کہ تمسخر اڑانے والے آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ان کے مقابلہ میں اللہ تعالی آپ کے لئے کافی ہے اور اللہ تعالی نے اس کو ہلاک کیا اور اسے بدترین طریقے سے قتل کیا۔

گزشتہ برس فرانس میں آزادی اظہار کے نام پر کھلے عام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخیاں کی گئیں۔ایک فرانسیسی ٹیچر نے طلباء کو رسول پاک کے خاکے دکھائے، جس پر تمام اسلامی ممالک میں اشتعال پھیل کیا، فرانسیسی حکومت نے ان گستاخانہ حرکتوں کا سرکاری سطح پر دفاع کیا،اس نامعقول اقدام پر پوری دنیا میں احتجاج ہوا۔خاکے دکھانے والے اس ٹیچر کو قتل کر دیا گیا۔مغرب کو سمجھنا چاہیے کہ آزادی اظہار کا مقصد کسی مذہب یا اس کے روحانی پیشواء کی تضحیک یا دل آزاری نہیں ہونی چاہیے اور نہ ہی آزادی اظہار کو کسی دوسرے مذہب کے خلاف استعمال کرنا چاہیے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حرمت مسلمانوں کے نزدیک تمام مسائل ومعاملات میں سب سے اہم اور مقدم ہے۔

مسلمان کسی صورت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی برداشت نہیں کر سکتے۔گستاخانہ مواد کی تشہیر کی مذمت ہر فورم پر ہونی چاہیے۔آزادی اظہار رائے کی آڑ میں مسلمانوں کی دل آزاری بند ہونی چاہیے۔

یورپی یونین نے اپنی قرارداد کے ذریعے جس طرح گستاخی کے مرتکب عناصر کی مکمل حمایت اور پشت پناہی کا اعلان کیا ہے،اس سے صرف مسلمان ہی نہیں دیگر مذاہب کے حقیقت پسند حلقوں نے بھی مایوسی کا اظہار کیا ہے اور اس سے عالمی امن واستحکام کے لئے سنگین خطرات کے پیدا ہونے کا عندیہ ظاہر کیا ہے۔اس سے معلوم ہوتا ہے یورپ اس وقت پوری طرح اسلامو فوبیا کا شکار ہو چکا ہے۔اور وہ اپنی اس قسم کی قراردوں کے ذریعے پوری دنیا کے مسلمانوں کو نفرت،حقارت اور بغض وعناد کا پیغام دے رہا ہے۔

عالمی استعماری قوتوں کی پالیسیوں کے نتیجے میں دنیا میں جنگوں،قتل وغارت اور تہذیبوں کے خطرات واضح دیکھے جا رہے ہیں۔آزادی اظہار رائے کے خود ساختہ نظریہ کی بناء پر یورپ سمیت تمام مغرب دنیا کو بربادی کی طرف دھکیل رہے ہیں۔جب کہ ہر سمجھدار شخص سمجھ سکتا ہے کہ مغرب کے آزادی اظہار کا نعرہ خود فریبی کا شاہکار ہے بلکہ تضادات کا مجموعہ ہے۔ان کے نزدیک آزادی اظہار کے تحت دنیا بھر کے دو ارب مسلمانوں کے مرکز محبت پر براہ راست حملہ کیا جا سکتا ہے لیکن یہودی لابی کے ظلم وستم کا تذکرہ نہیں کیا جا سکتا۔ ان ناپاک لوگوں کے نزدیک رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخانہ خاکے بنانا کوئی جرم نہیں،لیکن ہولو کاسٹ کے تاریخی افسانے بارے بات کرنا جرم ہے۔حیرت کی بات یہ ہے کہ مغربی دانشور خود کہتے ہیں کہ آزادی اظہار رائے کا یہ مطلب نہیں کہ کسی کی توہین کی جائے یا مذہبی جذبات کو مشتعل کیا جائے۔ان تمام وضاحتوں کے باوجود اہل مغرب مسلمانوں کے عقائد پر حملہ کرتے ہیں، اور مسلمانوں کے مقدسات کی اہانت آمیز غلیظ خاکے بنا کر اسے نشر کرتے ہیں۔ایسی حرکتوں کو اظہار رائے کی آزادی قرار دینا انتہائی شرم ناک رویہ ہے۔یہ غیر منطقی طرز عمل ہے،اس پر یورپ کو غور وفکر کرنی چاہیے۔

یہ ایک سوال ہے کہ موجودہ یورپ اسلام کو مسلسل نشانہ پر کیوں رکھے ہوئے ہے،حقیقت یہ ہے کہ دین اسلام آج یورپ کے لئے باعث کشش بنا ہوا ہے،دراصل قرون وسطی میں عیسائی طبقے نے اپنی عدم واقفیت یا پھر بہت زیادہ تعصب اور گھناونے پراپیگنڈہ کے نتیجے میں اسلام کی تعلیمات کو بھیانک بنا کر پیش کیا تھا،لیکن یہ اسلام کا اعجاز ہے کہ یہ اپنے مخالفین کو کھل کر چیلنج دیتا ہے کہ صرف گہری نظر سے اس کا مطالعہ تو کرو اور پھر دیکھو اس کے کرشمے۔برطانیہ کے شہرہ آفاق ادیب جارج برناڈ شانے برسوں پہلے کہا تھا کہ:” مغربی دنیا اسلام کی طرف آرہی ہے اور مستقبل میں محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کا دین مقبول ہو کر رہے گا۔”

اس وقت یورپی معاشرہ اسلام کا مطالعہ کر رہا ہے اور بے شمار لوگ اسلام قبول کر رہے ہیں،وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو انسانیت کا نجات دہندہ قرار دے رہے ہیں،قرآن مجید دنیا میں سب زیادہ پڑھی جانے والی کتاب بن چکی ہے،یورپی دانشوروں کا اسلام میں تجسس بڑھ رہا ہے۔قرآن مجید کے مطالعہ سے ان کے ذہنوں سے اسلام کے بارے میں مغربی میڈیا یا متعصب عیسائیوں کا پھیلایا ہوا گھناونا پراپیگنڈہ دم توڑ رہا ہے،غلط فہمیاں دور ہو رہی ہیں،زیادہ عرصہ نہیں گزرا گستاخانہ خاکوں کے مقابلے کا اعلان کرنے والے گستاخ رسول گیرٹ وائلڈرز کے سب سے قریبی ساتھی اور نیدر لینڈ کی سب سے بڑی انتہاء پسند مسلمان مخالف تنظیم کے سابق رکن جورم دین کلیورن نے اسلام قبول کر لیا،جورم دین،گیرٹ وائلڈرز کی قوم پرست فریڈم پارٹی کے رکن پارلیمنٹ رہ چکے ہیں،اس تنظیم کی سیاست کا ایک ہی مقصد ہے،وہ ہے اسلام کی مخالفت کرنا اور یورپ میں پیغام رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو پھیلنے سے روکنا۔

جورم نے قبولیت اسلام کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہا۔
وہ اسلام اور پیغمبر اسلام کے خلاف اپنی نئی کتاب کے لئے ریسرچ کر رہے تھے،اس دوران جب انہوں نے سیرت طیبہ کے چند پہلووں کا”تنقیدی” جائزہ لیا تو محسن انسانیت کی زندگی نے ان کی فکر کو تبدیل کر دیا،اگرچہ انہوں نے دل سے گزشتہ برس ہی اسلام قبول کیا تھا،تاہم اس کاباقاعدہ اعلان کچھ تاخیر کے بعد ریڈیو پراب کیا ہے۔

اہل یورپ کو انصاف سے کام لینا چاہیے،آج یورپ کی تمام ترقی اور معاشرے کا سدھار پن بعثت رسول اللہ سے ممکن ہوا،یقین نہیں آتا تو یورپین مورخین کی تحریریں اٹھا کر پڑھ لیں۔لیکی لکھتا ہے۔

اہل روما کے لئے سب سے زیادہ دلچسپ،فرحت افزا اور مست کر دینے والا نظارہ وہ ہوتا تھا جب باہم شمشیر زنی یا خوں خوار جانوروں کی لڑائی میں ہزیمت خورد اور مجروح جان کنی کی تکلیف میں مبتلا ہوتا اور موت کے کرب میں آخری ہچکی لیتا،اس وقت روما کے خوش باش اور زندہ دل تماشائی اس خوش کن منظر کو دیکھنے کے لئے ایک دوسرے پر گرے پڑتے اور پولیس کو بھی ان کو کنٹرول میں رکھنا ممکن نہ ہوتا۔(دیکھیے تاریخ اخلاق یورپ)

یورپ کی اس حالت کے دوران جب کہ پوری انسانیت جاں بلب تھی،اللہ تعالی نے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا:ارشاد ہوتا ہے۔

وما ارسلنک الا رحمةللعالمین (الانبیاء:)
اے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم)ہم نے آپ کو سارے جہان اور سارے جہان والوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔

چھپن اسلامی ممالک میں سے اب تک صرف ترکی کے صدر، طیب اردوان اور پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کے سوا کسی بڑے مسلم راہنما نے اس اہم مسئلے پر اپنی توجہ مبذول کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی۔یہ نہایت خوش آئند بات ہے کہ وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے تمام اسلامی ممالک کے حکمرانوں کے نام ایک مکتوب لکھا ہے،جس میں مسئلہ ناموس رسالت کو اٹھانے کے لئے مشترکہ جدوجہد کی ضرورت پر زور دیا ہے،لیکن تاحال اس پر کوئی عملی پیش رفت نظر نہیں آ رہی۔ان حالات میں دنیا بھر کے مسلمانوں کے ذہن میں ایک سوال ابھر رہا ہے کہ اگر یورپ اور مغربی ممالک مل کر یونین بنا سکتے ہیں اور اس کے ذریعے اپنے خود ساختہ نظریہ آزادی کے لئے جدوجہد کر سکتے ہیں تو مسلم ممالک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور حرمت کے لئے اکھٹے آواز بلند کیوں نہیں کر سکتے۔ایسے پرفتن حالات میں مسلم حکمرانوں کی بے حسی اسلامی دنیا میں عوامی احتجاج،باہمی انتشار اور سراسیمگی کا باعث بن سکتا ہے،جس سے اندیشہ یہ ہوتا ہے کہ یہ احتجاج کہیں پر تشدد رخ اختیار نہ کر جائے جو امہ کے لئے دوہرے مصائب اور مسائل کا شاخسانہ بن سکتا ہے۔اس لئے اسلامی ممالک کے حاکموں کو اپنی ذمہ داریوں کو پہلی فرصت میں محسوس کرنی چاہیں اور جملہ اہل اسلام میں بے چینی اور اضطراب پھیلنے سے پہلے گستاخان رسول اور گستاخ ممالک کے خلاف موثر ترین احتجاج ریکارڈ کروانا چاہیے۔اگر ان ممالک کی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے سے ان کی معیشت پر زد پڑتی ہے تو اس اقدام کو بطور ڈھال فوری استعمال میں لانا چاہیے۔ان ممالک کی تجارتی مصنوعات کا بائیکاٹ از حد ضروری ہے،کیوں کہ تمام مغربی ممالک مادہ پرست ہیں،جب ان کی معیشت تباہ وبرباد ہو گی تو یہ اوندھے منہ کے بل گریں گے۔

اس طرح تمام اسلامی ممالک ان یورپی ملکوں سے اپنے سفیر واپس بلا لیں اور ان کے سفیروں کو ملک بدر کر دیں،انہیں واضح اور دوٹوک پیغام دیں کہ جب تک گستاخوں کو کیفر کردار تک نہیں پہنچایا جاتا،اس وقت تک یہ بائیکاٹ جاری رہے گا۔

اس ذمہ داری کے لئے امت مسلمہ کے چھوٹے بڑے تمام طبقات کو اپنی ذمہ داری موثر انداز میں ادا کرنی چاہیے،توہین رسالت کے خلاف احتجاج کرنا مسلمانوں کا حق بھی ہے اور ذمہ داری بھی،جسے بھر پور طریقے سے استعمال میں لانا چاہیے۔تاہم احتجاج کی مقبولیت کا یہ تقاضا ہے کہ احتجاج پر امن اور منظم ہو،تاکہ اس کے دورس نتائج برآمد ہو سکیں۔

تحریر وتحقیق:حمیداللہ خان عزیز
ایڈیٹر:ماہنامہ مجلہ”تفہیم الاسلام”،احمد پور شرقیہ