حجاب عورت کی زینت

Andar ki batain

احمد علی محمودی

اسلام انسانوں کو جس پاکیزہ طرزِ زندگی کی دعوت دیتا ہے، اس میں لباس اور اس کی حدود و نوعیت بہت اہمیت کی حامل ہے۔ مسلمان ہونے کے بعد ہر بالغ مسلمان عورت پر پردہ اختیار کرنا لازمی قرار دیاگیا ہے۔ باحجاب ہونے کے نتیجہ میں مسلمان عورت کو دینی و دنیاوی طور پر جوبے شمار فوائد و ثمرات حاصل ہوتے ہیں وہ عقل سلیم رکھنے والے ہر فرد پر بخوبی عیاں ہیں۔
اہل مغرب نے اسلام کے نظام معاشرت کے جس پہلو پر سب سے زیادہ تنقید کی ہے، وہ مسلم خواتین کا حجاب یعنی پردہ ہے۔ بے پردگی ہرقسم کی بے حیائی، بدکاری، عریانی اور فحاشی کا سب سے پہلا دروازہ ہے۔ اسی لیے قرآن حکیم میں ان کی مذمت اور روک تھام کے لیے ارشادِ ربانی ہے

جو لوگ چاہتے ہیں کہ ایمان لانے والے گروہ میں فحش پھیلے، وہ دنیا اور آخرت میں دردناک سزا (عذاب) کے مستحق ہیں۔
النور:24، آیت: 19

سینے پر اوڑھنی ڈالنا


سورۃ النور آیت 31میں خواتین کو حکم دیاگیا

اور اپنے سینوں پراپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈال لیں۔

یعنی چادر سے اپنا گریبان چھپائے رکھیں۔

عورتیں اپنی زیب و زینت مخفی رکھیں

سورۃ النور آیت: 31میں ارشادِ ربانی ہے

اور عورتیں اپنی زیب و زینت کسی پر ظاہر نہ کیا کریں، سوائے اس کے جو ازخود (بغیر اُن کے اختیار کے) ظاہر ہو جائے۔

یعنی عورتیں نامحرم مردوں کے سامنے اپنی زینت یعنی حسن اور بناؤ سنگھار ظاہر نہ ہونے دیں، سوائے اس زینت کے جو از خود ظاہر ہوجائے۔ زینت سے مراد جسم کے وہ حصے ہیں،جن میں مرد کے لیے کشش ہے یا جہاں مختلف آرائش، بناؤ سنگھار یا زیورات کا استعمال کیا جاتا ہے۔ جو عورت عطر لگا کر لوگوں کے درمیان سے گزرتی ہے وہ آوارہ قسم کی عورت ہے۔ (مسلم، موطا امام مالک)

مخلوط معاشرت کی ممانعت

سورۃ النور کی اس آیت میں اظہار زینت کو محرم مردوں تک محدود کرنے کا حکم دے کر اللہ تعالیٰ نے غیر محرم مردوں کے ساتھ مخلوط معاشرت کی ممانعت فرما دی ہے۔ مسند ِ احمد میں رسول اللہﷺ کا ارشاد نقل کیا گیا ہے کہ

جو شخص اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ کسی عورت کے ساتھ ایسی خلوت میں نہ ہو جہاں کوئی محرم موجود نہ ہو کیوں کہ ایسی صورت میں ان دو کے ساتھ تیسرا شیطان ہوتا ہے۔

نیز آپﷺ نے اسے سخت ناپسند فرمایاکہ مرد، نا محرم خواتین کو چھوئیں یا ان سے مصافحہ کریں۔

نا محرم سے بات کرتے ہوئے نرم لہجہ اختیار نہ کریں

سورۃ الاحزاب کی آیت 31میں حکم دیاگیا

 نبیﷺ کی بیویو! تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو۔ اگر تم اللہ سے ڈرنے والی ہو تو (نامحرم) سے بات کرتے ہوئے ایسا نرم انداز اختیار نہ کرو، مبادا دل کی خرابی میں مبتلا کوئی شخص جنسی لالچ میں پڑ جائے، بلکہ بات کرو کھری۔

یعنی عورتوں کو اگر نا محرم مرد سے بات کرنا پڑے تو سیدھے سادھے، کھرے اور کسی حد تک خشک لہجے میں گفتگو کی جائے، آواز میں کوئی شیرینی یا لہجے میں کسی قسم کی لگاوٹ نہ ہو، تاکہ سننے والا کسی غلط فہمی کا شکار نہ ہو جائے۔

خواتین بلا ضرورت گھرسے باہر نہ نکلیں

سورۃ الاحزاب کی آیت 33میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے

اپنے گھروں میں وقار کے ساتھ رہو اوردورِ جاہلیت کی سی سج دھج نہ دکھاتی پھرو۔

اس آیت سے معلوم ہوا کہ عورت کے لیے زیادہ پسندیدہ طرزِ عمل یہی ہے کہ وہ گھر میں سکون اور وقار کے ساتھ رہے۔ دراصل اسلام میں مردوں کو اُن اُمور کی انجام دہی سونپی گئی ہے جن کا تعلق گھر کے باہر سے ہے اور عورتوں کو اُن اُمور کی انجام دہی سونپی گئی ہے، جن کا تعلق گھر کے اندر سے ہے۔
اگرچہ عورت کا دائرہ عمل اس کا گھر ہے تاہم اس کا گھر سے باہر نکلنا ممنوع نہیں کیا گیا، کسی اشد ضرورت کے تحت وہ گھر سے باہر نکل سکتی ہے لیکن اسے چاہیے کہ وہ باہر نکلتے ہوئے پردے کا خیال ضرور رکھے۔ ارشاد نبویﷺ ہے

اللہ نے تم کواپنی ضروریات کے لیے باہر نکلنے کی اجازت دی ہے۔

چہرے کا پردہ کرنا

سورۃ الاحزاب کی آیت نمبر 59 میں مذکور ہے

اے نبی! اپنی بیویوں، بیٹیوں اور مسلمان عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اُوپر اپنی چادروں کے پلو لٹکا لیا کریں۔ یہ زیادہ مناسب ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور اُنھیں ستایا نہ جائے۔ اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے۔

مراد یہ ہے کہ چادر اچھی طرح لپیٹ کر اس کا ایک حصہ اپنے اُوپر لٹکالیا کرو تاکہ جسم اورلباس کی خوبصورتی کے علاوہ چہرہ بھی چھپ جائے۔ البتہ آنکھیں کھلی رہیں۔
پردہ دار لباس مسلمان عورت کو وہ عظمت و تقدیس اور عزت ووقارعطا کرتا ہے، جس کی کوئی چھوٹی سے چھوٹی مقدار بھی مغربی تہذیب آزادی حریت کے تمام دعوؤں کے باوجود عورت کو کبھی نہیں دے سکتی۔ اپنے حیا دار لباس میں ملبوس مسلمان عورت کسی بھی معاشرے میں ایک امتیازی شناخت کی مالک ہوتی ہے۔ مغربی معاشروں کی طرح بدن اور جنسی کشش اُس کی پہچان اور اُس کی سوسائٹی میں اُس کے مقام کے تعین کا ذریعہ نہیں بنتی،جب کہ مغربی تہذیب میں ہر عورت کی پہچان درحقیقت اُس کی جنسی کشش ہی کی وجہ سے ہوتی ہے۔ مسلمان عورت پردے والے حیا دار لباس کے ذریعہ جو عزت و وقار حاصل کرتی ہے،اس کے نتیجے میں وہ معاشرے کی ایک مکمل رکن اور مکمل انسان کا مرتبہ عملاً حاصل کر لیتی ہے جبکہ مغربی معاشروں میں کسی عورت کا اس مقام کو حاصل کر لینا بڑی اَنہونی سی بات ہے۔

اگر کسی عورت کا لباس معقول شرم و حیا کے تقاضوں کے مطابق اور باوقار ہے تو لوگ اُسے احترام کی نظر سے دیکھیں گے اگر کسی عورت کا لباس منفی جذبات کو بھڑکانے والا ہو تو لوگوں کے دل میں اس کی عزت اور احترام کے جذبات کس طرح پیدا ہوں گے؟ ایک عورت جو اپنے لباس کے ذریعے منفی جذبات کو اُبھار رہی ہو، کس طرح یہ توقع کر سکتی ہے کہ اُس کے اِس طرزِ عمل سے اُس کے لیے کوئی مثبت رویہ سامنے آئے گا؟عقل مند مسلمان عورتیں یہ سمجھتی اور تسلیم کرتی ہیں کہ اگر جسم کو اللہ کے احکام کے مطابق ڈھانپانہ جائے اور مناسب لباس استعمال نہ کیا جائے تو اُنھیں معاشرے میں وہ مرتبہ ہرگز نہیں مل سکتا، جس کا وہ حق رکھتی ہیں۔