حجاب
تحریر: یمنیٰ امجد
Instagram:@ins_pirationzone
سوشل میڈیا پر ایک باہمت لڑکی کی ویڈیو وائرل ہو رہی ہے جو حجاب پہنے ہوئے ہندو انتہا پسندوں کے سامنے ڈٹ گئی، انتہاپسندوں نے انہیں ہر طرح سے ڈرانے کی کوشش کی ان پر نازیبا اشارے بھی کئے گئے مگر باحجاب لڑکی کسی خوف کے بغیر”اللہ اکبر“ کا نعرہ بلند کرتے ہوئے چلتی رہی۔
ماشااللہ! اے بنتِ حوا تیری عظمت کو سلام
حجاب! جو اسلامیہ کا مظاہرہ ہے، اس کو ہمیشہ غلط سمجھا گیا معاشرے میں بھی اور میڈیا پر بھی۔ کیا ہے حجاب؟ اس کو کیوں پہنتے ہیں؟اور ہمیں کیوں فرق پڑتا ہے کسی کے حجاب پہننے پر؟ حجاب صرف ایک سکارف نہیں ہے مشہور رائے کے برعکس حجاب صرف ایک سکارف نہیں ہے۔ جو مسلمان عورتیں اپنے بالوں پر لے لیتی ہیں۔ حجاب ایک پورا یقین ہے کہ ایک مسلمان ہونے کے ناطے ایک حیا ہے جو اس کے اندر ہوتی ہے ایک احساس ہے جو اپنے مذہب کے اصولوں کو پورا کرنے کا ہوتا ہے۔ حجاب مسلمان مرد کے اوپر بھی فرض ہے۔ لیکن مرد کا حجاب اپنے جسم کو مناسب طریقے سے ڈھکنا اور اپنی سوچ کو پاکیزہ رکھنا ہے۔
قرآن پاک حجاب کے بارے میں کیا کہتا ہے اس کی بہت سی تشریحات ہیں لیکن ہم ان آیات سے حجاب کے مفہوم کو سمجھتے ہیں۔۔۔
اے نبی! اپنی بیویوں اور اپنی صاحبزادیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے فرما دیں کہ ’باہر نکلتے وقت اپنی چادریں اپنے اوپر اوڑھ لیا کریں‘ یہ اس بات کے قریب تر ہے کہ وہ پہچان لی جائیں (کہ یہ پاکدامن آزاد عورتیں ہیں) پھر انہیں ایذاء نہ دی جائے اور اللہ بڑا بخشنے والا بڑا رحم فرمانے والا ہے۔
اے نبی!مومن عورتوں سے کہہ دیجئے کہ وہ اپنی نظریں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں۔ (النور 24 آیت 31)
ایک اہم بات حجاب کے بارے میں یہ ہے کہ حجاب ایک اور مسلمان عورت کا فخر ہوتا ہے۔ اگر کوئی مسلمان عورت کے نقاب باحجاب پر سوال اٹھائے،تو اے بنت حوا یاد رکھنا! تم اکیلی پیدا ہوئی ہو، تمہیں اکیلے ہی موت آئے گی،تم قبر میں اکیلی ہی ہوگی اور تمہارا حساب کی اکیلے تم سے ہوگا! یاد رکھنا کہ عورت کی خوبصورتی حیا میں ہے اور عورت کا تحفظ پردے میں ہے۔ عورت پر حیا کی چادر ایسے جچتی ہے، جیسے قرآن پر غلاف۔اپنے حجاب پر ناز کرو لڑکیو! کتابیں تو بہت ہے مگر غلاف صرف قرآن پر ہوتا ہے۔
جب ہمارے باپ یا بھائی ہمیں حجاب اوڑھنے کو کہتے ہیں تو پتہ ہے وہ کیوں کہتے ہیں؟کیونکہ ہمیں ڈھانپ کے وہی رکھنا چاہتا ہے جس کے لیے ہم قیمتی ہوتے ہیں۔۔۔۔۔ چاہے وہ ہمارا رب ہو یا پھر کوئی انسان۔
کٹا سکتی ہے سر اپنا مگر سجدہ نہ چھوڑیں گئی
بیٹیاں امت مسلمہ کی کبھی پردہ نہ چھوڑیں گی
پردہ اور حجاب نسواں کے بارے میں علامہ اقبالؒ کا نظریہ ملاحظہ ہو۔
حکیم محمد حسین راوی ہے کہ ایک مرتبہ علامہ مرحوم کو امریکہ یا کسی اور مغربی ممالک میں بصورت جانا تھا ارکان وقت اپنی بیوی سمیت جارہے تھے علامہ نے اس سے انکار کیا اور کہا کہ ان کی بیگم پردے کی پابند ہے اور ایسے وفود میں پردے کا ذکر تک نہیں آسکتا۔
ایک دفعہ کسی نے علامہ مرحوم سے پوچھا کہ عورتوں کے پردے کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے؟ آپ نے جواب دیا عورتیں تو کیا میرے نزدیک تو آج کل کے لڑکوں کو بھی پردہ کرنا چاہیے۔
انگلستان کی ایک شریف عورت میں بصد حسرت و ندامت اپنے ملک کی عورتوں کے متعلق ایک مقولہ لکھا جس میں یہ تھا کہ”انگلستان کی عورتیں اپنی عزت اور عفت کھو چکی ہیں اور ان میں سے بہت کم ایسی ملیں گی جنہوں نے اپنے دامن عصمت کو حرام کاری کے دھبہ سے آلودہ نہ کیا ہو اور ان میں شرم و حیا نام کو بھی نہیں۔ ہمیں سرزمین ِمشرق کی عورتوں پر رشک آتا ہے جو نہایت دیانت اور تقوی کے ساتھ اپنے شوہروں کے زیر فرمان رہتی ہیں اور ان کی عصمت کا لباس گناہ کے داغ سے ناپاک نہیں ہوتا وہ جس قدر فخر کریں بجا ہے اور اب وہ وقت آرہا ہے کہ اسلامی احکام وشریعت کی ترویج سے انگلستان کی عورتوں کی عفت کو محفوظ رکھا جائے“۔
اللہ پاک ہم سب مسلمانوں کو حجاب کرنے اور اس پر کاربند رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین)