صدارتی نظام کا شوشہ

اداریہ: ہفتہ 22 جنوری 2022 ء

سوشل میڈ یا پر آج کل صدارتی نظام اور ملک میں ایمرجنسی کے نفاز کے حوالے سے چرچا جار ی ہے اور اس بار ے میں طرح طرح کے تبصرے اور قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں۔ سوشل میڈیا سے شروع ہونے والی بحث نے،ملکی سیاستدانوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے صدارتی نظام کے حق اورمخالفت میں دلائل دیئے جا رہے ہیں پی ٹی آئی کے حامی یو ٹیوبرزصدارتی نظام کے حق میں جبکہ ن لیگ کے حامی انکی مخالفت میں گفتگو کرتے دکھائی دیتے ہیں،
گو وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے صدارتی نظام کے حوالے سے تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کا ایسا کو ئی ارادہ نہیں ہے لیکن اسکے باوجود یہ بحث ختم نہیں ہو ئی،صدارتی نظام کے حامیوں کا موقف ہے کہ پارلیمانی نظام پاکستان میں ناکام ہو چکا ہے ان کا کہنا ہے کہ اس نظام میں جاگیر دار وڈیرے اور سرمایہ دار ہی اراکین پار لیمنٹ منتخب ہو تے ہیں جبکہ ملک کی سیاسی جماعتوں پیپلز پارٹی مسلم لیگ ن،اے این پی اور جمعیت علماء اسلام کا حوالہ د یتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ان پر خاندانی سیاست کا غلبہ ہے ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان کے علاوہ بھارت اور بنگلہ دیش میں بھی جاری پارلیمانی نظام کو بھی پاکستان جیسی صورتحال کا سامنا ہے
پارلیمانی نظام میں وزیر اعظم کو واضح اکثریت نہ ملنے کی صورت میں چھوٹی چھوٹی اتحادی جماعتوں کی بلیک میلنگ کا سامنا کر نا ہو تا ہے اسی طرح وزیر اعظم اپنا ایجنڈ اپورا نہیں کر سکتا اور نہ ہی عوام سے کیے گئے اپنے وعدوں کو پورا کر سکتا ہے
پارلیمانی نظام کی مخالفت میں دئیے گئے دلائل میں بڑی حد تک صداقت پائی جا تی ہے مگر وطن عز یز کی صورتحال اسکے بر عکس دکھائی دیتی ہے پاکستان میں سابق فوجی آمرفیلڈ مارشل ایوب خان نے 1962 کے آئین کے تحت صدارتی نظام نافذ کیا اُسکے بعد جنرل ضیاالحق نے بطور صدر گیار ہ برسوں تک ملک پر حکومت کی اور آئینی ترامیم کر کے 1973 کے آئین کا حلیہ بگاڑ دیا بعد ازاں جنرل مشرف بحیثیت صدر ملک کے سیاہ وسفید کے مالک بنے رہے ان تینوں فو جی آمروں کے ا دوار کے نتائج آپ کے سامنے ہیں۔فیلڈ مارشل ایوب خان کے دور میں سابق مغربی پاکستان میں ترقی ہوئی اور ڈیم بنائے گئے کراچی سے دارالحکومت اسلام آباد منتقل کیا گیا اور نیا وفاقی دارالحکومت بنایا گیا مگر ایوب خان کی پالیسیوں کے باعث سابق مشرقی پاکستان میں احساس محرومی نے جنم لیا اور اسکے نتیجہ میں پاکستان دولخت ہو گیا۔ جنرل ضیا ء الحق کے دور اقتدار میں سیاچن کی صورتحال سب کے سامنے ہے سوویت یونین کے خلاف ہم امریکہ کے آلہ کار بنے اور اسکے نتیجہ میں پاکستان کو کلاشنکو ف کلچر اور لوڈ شیڈنگ کے تحفے ملے۔ جنرل پرویز مشرف امریکہ کے وزیر خارجہ کی ایک ٹیلی فون کال کے آگے سربسجود ہوگئے اور پاکستان ایک بار پھر امریکہ کی نام نہاد جنگ میں شامل ہو گیا جنرل مشرف کے دور حکومت میں پاکستان میں دہشت گردی کا سلسلہ شروع ہوا جس میں 70ہزار سے زائد پاکستانی شہید ہوئے اور اربوں ڈالر کا نقصان ہو۔ مسلح افواج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی قربانیوں کے باعث دہشت گردی پر قابو پایا گیا مگر ابھی تک یہ سلسلہ جاری ہے
سابق وزیر اعظم ذولفقار علی بھٹو نے ملک کی تمام جماعتوں کی مشاورت اور اتفاق سے 1973 میں متفقہ آئین دیا جسکے ایوان بالا یعنی سینٹ میں چاروں وفاقی اکائیوں سندھ، پنجاب، بلوچستان، اور خبیر پختوانخوہ کو مساوی نمائندگی دی گئی ہے تاکہ چھوٹے صوبوں کا احساس محرومی ختم کیا جا سکے۔ اب اگر صدارتی نظام نافذ کیا جاتا ہے تو اس میں آبادی کے لحاظ سے پنجاب کو غلبہ حاصل ہو گا اور ہمیشہ صدر اسی صوبے کا منتخب ہو گا پارلیمانی نظام کے ناقدین کا کہنا ہے کہ اس سسٹم کے تحت خاندانی سیاست چلی آرہی ہے درست نہیں ہے بھارت کی مثال آپ کے سامنے ہے جسے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہا جاتا ہے بھارت میں طویل عرصہ تک نہرو خاندان نسل در نسل حکمران رہا مگر انتخابی عمل جاری رہنے کے نتیجہ میں اس خاندان کو زوال آیا اور انکی جگہ بی جے پی نے لے لی۔اسی طرح اگر پاکستان میں بلاکسی رکاوٹ کے جمہوری عمل کوچلنے دیا جائے تویہاں بھی شریفوں زرداریوں اور دیگر خاندانوں کی سیاست دم توڑ جائے گی مگر بد قسمتی سے ہمارے ملک میں جمہوریت کو چند سال چلنے دیا جاتا ہے اور اسکے دوران ہی شب خون مارا جا رتا ہے جسکے باعث خاندانی سیاست کا ابھی تک تسلط چلا آرہا ہے
ہم ان کالموں کے ذریعے گزارش کریں گے کہ پاکستان میں 1973 کے آئین کے تحت جاری پارلیمانی نظام کو چلنے دیا جائے تا ہم تمام سیاسی جماعتیں اتفاق رائے سے ترامیم کر کے اسے مزید بہتر بناسکتی ہیں ملکی مسائل کے حل کے لیے ضروری ہے کہ نئے صوبوں کی تشکیل عمل میں لائی جائے اگر ملک بھر کے تمام ڈویژنوں کو انتظامی یونٹس کا درجہ دیدیا جا ئے تو اس سے ملک کے عوام کو درپیش مسائل بڑی حد تک حل ہو جائیں گے۔