Advertisements

بینظیر نے کہا "چلو، اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ مجھے چند مہینوں میں مر ہی جانا ہے”

Ehsan interviewing benazir
Advertisements

چھبیس دسمبر 2007 کی رات جب بے نظیر بھٹو ایک لانگ ڈرائیو کے بعد اسلام آباد کے زرداری ہاؤس پہنچیں تو وہ بہت تھک چکی تھیں لیکن آئی ایس آئی کے سربراہ میجر جنرل ندیم تاج کا پیغام ان تک پہنچا تھا کہ وہ ایک اہم کام کے لیے ان سے ملنا چاہتے ہیں۔

سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو نے فیصلہ کیا کہ وہ دو گھنٹے سوئیں گی اور رات گئے ندیم تاج سے ملاقات کریں گی۔ یہ ملاقات رات ڈیڑھ بجے ہوئی اور بے نظیر کے علاوہ ان کے سلامتی کے مشیر رحمان ملک بھی اس میں شامل تھے۔

Advertisements

ندیم تاج نے انھیں بتایا کہ اس دن کوئی انھیں قتل کرنے کی کوشش کرے گا۔ آئی ایس آئی کے سربراہ میجر جنرل ندیم تاج کو اپنے ذرائع سے اتنا یقین تھا کہ وہ خود دیر رات بے نظیر کی اسلام آباد رہائش گاہ پہنچے تھے۔

بی بی سی کے اسلام آباد میں سابق نمائندے اوین بینیٹ جونز اپنی کتاب ‘دی بھٹو ڈائنیسٹی دی سٹرگل فار پاور ان پاکستان’ یعنی ‘پاکستان میں طاقت کے لیے جدوجہد میں بھٹو خاندان’ میں لکھتے ہیں: ‘یہ سنتے ہی بے نظیر کو شبہ ہوا کہ ندیم تاج کہیں ان پر اپنے پروگرام کو منسوخ کرنے کے لیے دباؤ تو نہیں ڈال رہے ہیں۔ انھوں نے تاج سے کہا اگر آپ ان خودکش بمباروں کے بارے میں جانتے ہیں تو آپ انھیں گرفتار کیوں نہیں کرتے؟ تاج کا جواب تھا کہ ‘یہ ناممکن ہے کیونکہ اس سے ان کے وسائل کا راز افشا ہوجائے گا۔’

اس پر بے نظیر نے کہا کہ آپ میری سکیورٹی میں اضافہ کریں۔ آپ نہ صرف میری بلکہ میرے لوگوں کی حفاظت کو بھی یقینی بنائيں۔ آئی ایس آئی کے سربراہ نے وعدہ کیا تھا کہ وہ اس کے لیے اپنی پوری طاقت لگآ دیں گے۔’

بے نظیر کے قتل کی تیاریاں
بے نظیر جب جنرل تاج سے مل رہی تھیں ان کے قاتل ان کے قتل کی حتمی تیاری کر رہے تھے۔

بینیٹ جونز لکھتے ہیں: ‘آدھی رات کے بعد طالبان ہینڈلر نصراللہ پندرہ سال کے دو بچوں بلال اور اکرام اللہ کے ساتھ راولپنڈی پہنچ چکا تھا۔ اسی دوران طالبان کے دو دوسرے ارکان حسنین گل اور رفاقت حسین راولپنڈی کے لیاقت باغ کا معائنہ کر آئے تھے، جہاں بے نظیر بھٹو کو شام کو جلسے سے خطاب کرنا تھا۔اس وقت پولیس پارک کے تینوں گیٹ پر میٹل ڈیٹیکٹر لگا رہی تھی۔ لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑ رہا تھا کیونکہ منصوبہ یہ تھا کہ بے نظیر پر حملہ کیا جائے گا جب وہ جلسے سے واپس جارہی ہوں گی۔’

یہ دونوں افراد وہاں سے مکمل طور پر مطمئن ہوکر واپس آئے اور بلال کو کچھ کارتوسوں کے ساتھ پستول اور اکرام اللہ کو ایک ہینڈ گرنیڈ دیا۔

حسنین نے بلال کو مشورہ دیا کہ ٹرینر کے جوتے کے بجائے کچھ اور پہننے کیونکہ افواج کو یہ سکھایا جاتا ہے کہ جہادی ٹرینر جوتے پہنتے ہیں اور وہ انھیں شبہے میں پکڑ سکتے ہیں۔ بلال نے مشورے کے بعد جوتے کی جگہ چپل پہن لی۔’

نماز پڑھنے کے بعد حسنین بلال کو اس گیٹ تک لے گئے جو ان کے خیال میں بے نظیر استعمال کرنے والی تھیں۔

بے نظیر بھٹو کے قتل کی تحقیقات کرنے کے لیے اقوام متحدہ کی انکوائری کمیشن کے سربراہ اور بعد میں ‘گیٹنگ اوے ود مرڈر’ نامی کتاب لکھنے والے ہیرالڈو منیوز لکھتے ہیں: ’27 دسمبر کی صبح بے نظیر صبح ساڑھے آٹھ بجے بیدار ہوئيں۔ نو بجے انھوں نے ناشتہ کیا۔ ڈھائی گھنٹے بعد وہ امین فہیم اور پیپلز پارٹی کے سابق سینیٹر کے ساتھ افغان صدر حامد کرزئی سے ملنے گئیں۔ کرزئی اسلام آباد کے سرینا ہوٹل کی چوتھی منزل پر ٹھہرے تھے۔ ایک بجے وہ زرداری ہاؤس واپس آئیں۔ انھوں نے کھانا کھایا اور شام کو اپنے ساتھیوں کے ساتھ لیاقت باغ میں دی جانے والی تقریر کو حتمی شکل دی۔’

سہ پہر کو بے نظیر گاڑیوں کے قافلے میں لیاقت باغ کے لیے روانہ ہوگئیں۔ اس قافلے میں سب سے آگے ٹویوٹا لینڈ کروزر میں پیپلز پارٹی کے سکیورٹی کے سربراہ توقیر کائرا تھے۔

ان کے بالکل پیچھے بے نظیر کی سفید رنگ کی لینڈ کروزر تھی اور دونوں طرف کائرا کی دو اور گاڑیاں چل رہی تھیں۔ ان گاڑیوں کے پیچھے زرداری ہاؤس کے دو ٹویوٹا وگو پک اپ ٹرک چل رہے تھے۔ ان کے پیچھے زرداری ہاؤس کی سیاہ مرسڈیز بینز تھی جو بلٹ پروف تھی اور ضرورت پڑنے پر بینظیر اسے بیک اپ گاڑی کے طور پر استعمال کرسکتی تھیں۔

بینظیر کی کار میں سامنے والی سیٹ پر ان کے ڈرائیور جاوید الرحمٰن اور دائیں جانب سینیئر سپرنٹنڈنٹ پولیس میجر امتیاز حسین بیٹھے تھے۔

درمیانی نشست پر بائیں طرف پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنما مخدوم امین فہیم، وسط میں بے نظیر اور دائیں جانب بینظیر کی پولیٹیکل سکریٹری ناہید خان بیٹھی تھیں۔

دو بج کر 15 منٹ پر بے نظیر کا قافلہ فیض آباد جنکشن پہنچا جہاں سے ان کی سکیورٹی کی ذمہ داری راولپنڈی ڈسٹرکٹ پولیس پر آگئی۔ دو بج کر 56 منٹ پر بے نظیر کا قافلہ دائیں مڑ کر مری روڈ- لیاقت روڈ موڑ پر آیا اور لیاقت باغ کے وی آئی پی پارکنگ ایریا کی طرف بڑھنے لگا۔

اسی وقت بے نظیر کھڑی ہوئیں اور ان کے لینڈ کروزر کی چھت سے ان کا چہرہ ظاہر ہوا۔ وہ لوگوں کی طرف ہاتھ ہلا رہی تھیں اور ان کا سلام قبول کررہی تھیں اور ان کی گاڑی لیاقت روڈ پر آہستہ آہستہ چل رہی تھی۔

بے نظیر کی حفاظت کرنے والے لوگوں نے ایک بار بھی انھیں نہیں روکا کہ اس طرح کھڑا ہونا خطرے سے خالی نہیں ہے۔

ہیرالڈو منیوز اپنی کتاب میں لکھتے ہیں: ‘تین بج کر 16 منٹ پر بے نظیر کے قافلے کو پانچ سے چھ منٹ تک پارکنگ ایریا کے اندر والے گیٹ پر رکنا پڑا کیونکہ پولیس کے پاس گیٹ کھولنے کی چابی نہیں تھی۔ اس دوران بے نظیر مکمل طور پر غیر محفوظ اپنی گاڑی پر کھڑی رہیں اور ان کا چہرہ اسکیپ ہیچ کے باہر نظر آتا رہا۔’

اس کے بعد بے نظیر نے تقریبا دس ہزار لوگوں کے سامنے آدھے گھنٹے تک تقریر کی۔ اس دوران انھوں نے 17 بار اپنے والد کا نام لیا۔ تقریر ختم ہوتے ہی پورا علاقہ ‘بے نظیر زندہ آباد’ اور ‘بے نظیر وزیر اعظم’ کے نعروں سے گونج اٹھا۔

تقریر کے بعد بے نظیر اپنی گاڑی میں بیٹھ گئیں۔ ان کی کار کافی دیر تک رکی رہی کیونکہ ان کے حامیوں نے اسے چاروں طرف سے گھیر لیا تھا۔ بھیڑ کو دیکھ کر بے نظیر کھڑی ہوگئیں اور ان کے ایمرجنسی ہیچ سے ان کے سر اور کندھے نظر آنے لگے۔ اس وقت پانچ بج کر دس منٹ ہوئے تھے۔

اوون بینیٹ جونز لکھتے ہیں: ’صبح سے انتظار کرنے والے بلال کو محسوس ہوا کہ اس کا وقت آگیا ہے۔ وہ پہلے بے نظیر کی گاڑی کے سامنے گیا اور پھر اس کے بغل میں پہنچا جہاں کم لوگ تھے۔ اس نے اپنی پستول نکالی اور بے نظیر کے سر کا نشانہ لیا۔ ایک سکیورٹی گارڈ نے بلال کو روکنے کی کوشش کی۔ چونکہ وہ تھوڑی دوری پر تھا لہذا وہ صرف اس کے بازو کو چھو سکا تھا۔ بلال نے ایک سیکنڈ سے بھی کم وقت میں تین فائر کیے۔ تیسری گولی کے چلتے ہی بے نظیر سکیپ ہیچ کے نیچے پتھر کی طرح اپنی گاڑی کی سیٹ پر گر پڑیں۔ جونہی وہ نیچے گریں، بلال نے خودکش بم بھی پھوڑ دیا۔’

جبکہ ہیرالڈو منیوز لکھتے ہیں: ‘ناہید خان جو بینظیر کے دائیں طرف بیٹھی تھیں، انھوں نے مجھے بتایا کہ جیسے ہی انھوں نے تین گولیوں کی آواز سنی، بے نظیر نیچے گریں اور ان کے سر کا دایاں حصہ ان کی گود میں گرا۔ ان کے سر اور کان سے تیزی سے خون بہہ رہا تھا اور ان کے خون سے میرے سارے کپڑے تر ہوگئے۔ مخدوم امین فہیم جو بے نظیر کے بائیں طرف بیٹھے تھے انھوں نے بتایا کہ جب بینظیر گریں تو ان کے جسم میں زندگی کی کوئی علامت نہیں تھی۔ ان کی گاڑی میں کسی اور کو کوئی شدید چوٹ نہیں آئی۔’

کار کے چاروں ٹائر پھٹ گئے
وہاں ایک بھی ایمبولینس دستیاب نہیں تھی۔ بم دھماکے کی وجہ سے بے نظیر کی کار کے چاروں ٹائر پھٹ گئے تھے۔ ڈرائیور کار لوہے کی رم پر چلاتے ہوئے اسے راولپنڈی جنرل ہسپتال کی طرف لے گیا۔

لیاقت روڈ پر 300 میٹر چلنے کے بعد اس نے اسی حالت میں کار کو بائیں طرف موڑ دیا۔ کار اسی حالت میں کچھ کلومیٹر تک چلتی رہی۔ ایک جگہ جب لینڈ کروزر نے یو ٹرن لینا چاہا تو وہ رک گئی اور آگے نہیں بڑھ سکی۔ جائے وقوعہ پر موجود دو کمانڈو گاڑیوں نے بے نظیر کی گاڑی کے پیچھے چلنے کی کوشش کی لیکن وہ آگے کی لاشوں اور زخمی افراد کی وجہ سے آگے نہیں بڑھ سکے۔

ناہید خان نے اوون بینیٹ جونز کو بتایا: ‘ہمارے سامنے بے نظیر کو ٹیکسی میں ہسپتال لے جانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا، پولیس کو کچھ پتہ نہیں تھا۔ ہم ٹیکسی کا انتظار کر رہے تھے کہ دو یا تین منٹ میں ایک جیپ آ کر رکی۔ ہم بے نظیر کو اس جیپ میں ہسپتال لے گئے۔ وہ جیپ بے نظیر کی ترجمان شیریں رحمان کی تھی۔’ ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ وہ سب حملے کے 34 منٹ بعد ہسپتال پہنچے۔

بے نظیر کے گلے میں ٹیوب ڈالی گئی
ہسپتال پہنچنے کے فورا بعد بے نظیر کو سٹریچر پر پارکنگ ایریا کے اندر لے جایا گیا۔ ان کی نہ تو نبض چل رہی تھی اور نہ ہی وہ سانس لے رہی تھیں۔

ان کی آنکھوں کی پتلیان ایک جگہ ٹھہری تھیں اور ٹارچ کی روشنی سے بھی ان میں کوئی حرکت نہیں تھی۔ ان کے سر سے مسلسل خون نکل رہا تھا اور وہاں سے ایک سفید مادہ نکل آیا تھا۔

موت کے مکمل شواہد کے باوجود ڈاکٹر سعیدہ یاسمین نے انھیں بچانے کی پوری کوشش کی۔ تھوڑی ہی دیر میں ڈاکٹر اورنگزیب خان بھی ان کی مدد کو پہنچے۔ ایک منٹ کے اندر ان کے گلے میں ایک ٹیوب ڈالی گئی۔

پانچ بج کر 50 منٹ پر ہسپتال کے سینیئر فزیشین پروفیسر مصدق خان نے وہاں پہنچ کر چارج سنبھال لیا۔ بے نظیر کی ناک اور کان سے خون بہہ رہا تھا۔ حملے کے پچاس منٹ بعد، چھ بجنے سے کچھ منٹ پہلے ڈاکٹر انھیں آپریشن تھیٹر لے گئے۔

پروفیسر مصدق خان نے ان کا سینہ چاک کیا ان کے دل کی اپنے ہاتھوں سے مالش کرنے لگے۔ لیکن ان میں کوئی حرکت نہیں ہوئی۔ چھ بج کر 16 منٹ پر بے نظیر کو مردہ قرار دیا گیا۔

سارے مردوں کو آپریشن تھیٹر سے باہر جانے کے لیے کہا گیا۔ ڈاکٹر قدسیہ انجم قریشی اور نرسوں نے ان کے جسم کو صاف کیا اور سر کی چوٹ پر پٹی لگائی۔ ان کے خون سے بھیگے ہوئے کپڑے اتار دیئے گئے اور انھیں ہسپتال کے کپڑے پہنا دیے گئے۔

ڈاکٹروں نے بتایا کہ جب بینظیر ہسپتال پہنچیں تو ان کے جسم پر کوئی دوپٹہ نہیں تھا۔ ابھی تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ آخر دوپٹہ کہاں گیا۔ ان کے ڈیتھ سرٹیفکیٹ نمبر 202877 میں موت کی وجہ کے کالم میں لکھا گیا کہ ‘پوسٹ مارٹم کے بعد علم ہوگا۔’

ڈاکٹر مصدق خان نے پولیس چیف سعود عزیز سے تین بار پوسٹ مارٹم کی اجازت طلب کی لیکن انھوں نے تین بار اس کی اجازت نہیں دی۔

بعد میں انھوں نے یہ کہتے ہوئے فیصلے کا دفاع کیا کہ انھیں بے نظیر کے اہل خانہ سے اجازت نہیں ملی ہے۔ جب ہسپتال کے باہر بینظیر کی موت کا اعلان کیا گیا تو وہاں کھڑے ہجوم کے منھ سے ایک آہ نکلی۔

وہ حیران اور غمزدہ بھی تھے کہ ایک اور بھٹو نے پرتشدد موت کو گلے لگایا تھا۔ بے نظیر کے والد ذوالفقار علی بھٹو کو فوجی حکومت نے پھانسی دے دی تھی۔ ان کے ایک بھائی شاہنواز زہر کی وجہ سے موت ہوئی اور دوسرے بھائی مرتضی کی گولی لگنے سے موت ہوگئی۔

رات دس بج کر 35 منٹ پر بے نظیر کی نعش کو لکڑی کے تابوت میں رکھ کر قریبی چکلالہ ائیربیس لے جایا گیا۔

اٹھائیس دسمبر کی رات ایک بجے ان کی میت ان کے شوہر آصف علی زرداری کے حوالے کردی گئی جو چند منٹ قبل دبئی سے وہاں پہنچے تھے۔ جب زرداری پاکستان پہنچے تو ان سے بھی بینظیر کی لاش کا پوسٹ مارٹم کرنے کی اجازت طلب کی گئی لیکن انھوں نے اس کی اجازت نہیں دی۔

اٹھائیس دسمبر سنہ 2007 کو لاڑکانہ میں گڑھی خدا بخش میں بے نظیر بھٹو کو سپرد خاک کیا گیا

پاکستان واپس آنے سے پہلے وہ امریکہ کے شہر کولوراڈو میں ایسپن جارہی تھیں۔ طیارے میں امریکی سفیر زلمے خلیل زادہ اور ان کی اہلیہ بھی ان کے ہمراہ تھے۔ طیارے کی میزبان نے بینظیر کو تندور سے براہ راست نکلی تازہ تازہ کوکیز کھلانے کی پیش کش کی۔

بے نظیر نے شائستگی سے یہ کہتے ہوئے انکار کردیا کہ ان دنوں وہ اپنا وزن کم کررہی ہیں۔ لیکن ایک سیکنڈ کے اندر ہی انھوں نے ائیر ہوسٹس کو واپس بلایا اور کہا چلو۔ اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟
مجھے چند مہینوں میں مر ہی جانا ہے۔’

Muhammad-Saleem-Bhatti
ترتیب : محمد سلیم بھٹی۔ ڈپٹی انفارمیشن سیکرٹری پیپلز پارٹی جنوبی پنجاب