پرنس بہاول عباس خان عباسی کی شکست بنتی نہیں تھی

Crown Prince Bahawal Abbas Khan Abbasi
پرنس بہاول عباس خان عباسی

تحریر :حمیداللہ خان عزیز

لگا کر آگ شہر کو بادشاہ نے کہا
‏ اُٹھا ہے دل میں تماشے کا آج شوق بہت
‏جھکا کر سر سبھی شاہ پرست بولے
‏حضور! شوق سلامت رہے شہر اور بہت

ھمیں کوئی نیا پاکستان نہیں چاھئے۔صرف وہ پاکستان چاھئے جس پر محسن پاکستان امیر آف بہاول پور نواب سر صادق محمد خان عباسی خامس نے عدل وانصاف سے بھرپور اور اسلامی تعلیمات سے معمور اپنی ریاست بہاول پور قربان کر دی تھی۔
وہ ریاست جس نے سب سے پہلے عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کا علم بلند کیا۔وہ رہاست جس نے علماء ومشائخ عظام کا اکرام کیا اور انہیں علم وادب کو پھیلانے کے بہترین مواقع عطا کیئے۔وہ ریاست جس نے جامعہ اسلامیہ کے نام سے عظیم الشان یونیورسٹی قائم کی،وہ ریاست جس نے نوزائدہ پاکستان کے لئے ھمہ قسمی قربانی پیش کی۔۔

مقتدر حلقوں سے التماس ھے کہ:
یا ھمیں وھی پاکستان دو یا پھر ھمارا صوبہ واپس کرو۔

25- جولائی 2018ءکے الیکشن میں امیر آف بہاول پور نواب صلاح الدین عباسی کے ولی عہد پرنس بہاول عباس خان عباسی کو جن قوتوں نے دھونس اور دھاندلی کے ذریعے نتائج پر اثر انداز ھوکر ہرایا، وقت نے ایک اور انگڑائی لی،انہی قوتوں نے 8 فروری 2024ء کے انتخابات میں بھی انہیں پھر ہرادیا۔سابقہ الیکشن کی طرح اس مرتبہ بھی حلقہ این اے 166(احمد پور شرقیہ اور اوچ شریف) کے باشندگان کا ووٹ نواب صاحب کو ملا،اگر میں یوں کہوں تو بے جا نہ ہو گا کہ الیکشن میں نواب صاحب کا ریلا تھا۔اب یہ پردہ فاش ہو چکا کہ مخالف امیوار کو نوازا کیوں گیا۔۔۔۔حقائق طشت ازبام ہو چکے۔میں اپنے ناقص مطالعہ کی روشنی میں ان لوگوں کے لئے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا یہ قول پیش کرتا ہوں،جو ہم سب کے لئے تازیانہ عبرت کا درجہ رکھتا ھے،وہ فرماتے ہیں:
”کفر کا اقتدار تو چل سکتا ھے مگر ظلم کا نہیں۔“
نئی حکومت کے تشکیل پاتے ہی صوبہ بہاول پور اورصوبہ جنوبی پنجاب یا سرائیکی صوبہ بنانےکی تحریکیں اپنا زور دکھائیں گی،ان حالات میں سابقہ ریاست بہاول پور کے باشندگان کا مقدمہ درست سمت میں لڑنے کے لئے نواب آف بہاول پور کی پگ کے وارث پرنس بہاول عباس خان عباسی کا پارلیمنٹ میں پہنچنا بہت ضروری تھا،تاکہ وہ اس خطے کی موثر نمائندگی کرتے ھوئے اس کی پسماندگی بالخصوص اہل علاقے کے بنیادی حقوق کے تحفظ کے لئے آوازہ حق بلند کر سکتے۔اسی طرح وہ اپنے بیرونی اثر ورسوخ کو استعمال میں لا کر تعلیم،صحت اور صاف پانی کے پراجیکٹ کو ضلع بہاول پور کی سطح تک پھیلا سکتے۔
افسوس۔۔ایک سازش کے تحت محسن پاکستان ،خانوادہ نواب سر صادق محمد خان خامس عباسی مرحوم وسابق گورنر پنجاب نواب عباس خان عباسی کے سیاسی افکار کے وارث و جانشین پوتے یعنی موجودہ امیر آف بہاول پور نواب صلاح الدین عباسی کے بیٹے پرنس بہاول عباس خان عباسی کو دوسری مرتبہ ہرایا گیا۔ان کے مدمقابل مخدوم سید سمیع الحسن گیلانی حلقہ این اے 166سے ایم این اے منتخب ھو گئے ھیں۔ایک طرف وہ ظاہری فتح سے ھم کنار ھوئے لیکن اخلاقی طور پر ان کی شکست ھے۔وہ حالات کی نزاکت کاادراک کرنے کے باوجود امیر آف بہاول پور کی جا بجا مخالفت کرتے رہے،یہ انصاف کا خون نہیں تو اور کیا ہے کہ 8 فروری کی شب پرنس کی جیت یقینی ہو چکی تھی کہ اگلے روز انہیں چند ہزار ووٹوں سے ہرا دیا گیا۔فیا للعجب۔جولائی 2018ء کے الیکشن میں بھی یہی کچھ ہوا کہ موجودہ منتخب ایم این اے اس وقت تحریک انصاف کے امیدوار تھے، ان کے سپورٹرز وہ لوگ تھے جو عمران خان کے عشق میں مبتلا ھو کرخود کو کسی روگ میں مبتلا کر بیٹھے تھے کہ عمران خان کی محبت میں کسی کی پگڑی اچھالنی پڑے تو لحاظ مت کرو۔بازاری زبان استعمال کرنے سے بھی گریز نہ کرو۔۔جواب میں کہا یہی جاتا رہا کہ نیا پاکستان بن رھا ھے۔۔۔(ایسے انداز سے اللہ کی پناہ)،8فروری2024ء کے انتخاب میں بہاول عباسی اچھی خاصی لیڈ سے جیت رہے تھے کہ صبح انہیں ہرا دیا گیا۔اس دفعہ بھی وہی حربے اپنائے گئے،جو سابقہ الیکشن میں استعمال کیے گئے۔میں پوچھتا ہوں کیا ترقی یافتہ اقوام کے یہی اطوار ہوتے ہیں؟
ہر خطے اور علاقے کی اپنی حیثیت ھے مگر بہاول پور ان سب میں جداگانہ مقام رکھتا ھے۔اس کے مفادات کے تحفظ کے لئے قومی سطح پر اس عظیم خانوادہ عباسیہ کی انٹری بذات خود وفاق پاکستان کے لئے ازحد ضروی تھا۔کیوں کہ بہاول پور ڈویژن خاندان عباسیہ سے جڑا ھوا ھے ۔نواب صاحب کا ہار جانا اس لئے خطے کے مفاد میں اس لئے بھی نہیں ھے کہ:
بہاول پور کو اس وقت بے شمار مسائل کا سامنا ھے۔پاکستان کے ساتھ ریاست کے الحاق کے وقت امیر آف بہاول پور نواب سر صادق محمد خان عباسی مرحوم ومغفور نے جو معاہدے کئے تھے ان کا دفاع کرنا اور انہیں سلیقے سے وفاق پاکستان کے سامنے پیش کرنا انتہائی اہم مرحلہ ھے۔۔اور یہ مقدمہ صرف پرنس بہاول خان عباسی ھی اسمبلی کے فلور پر لڑ کر عوام بہاول پور کے حقوق کے تحفظ کا ضامن بن سکتا ہے۔
سوال یہ کہ ان کی جگہ کوئی غیر عباسی ان معاھدوں کے مندرجات سے آگاہ ھے؟وہ کس طرح حلقے کے عوام کی نمائندگی کر سکتے ھیں۔ہمارے رحجان کے مطابق نواب صاحب کے مد مقابل حضرات کو تو چاھیے تھا کہ وہ ان کے مقابلے میں کھڑے ھی نہ ھوتے اور خود کہتے کہ نواب صاحب یہ آپ کی آبائی سیٹ ھے،اور آپ جس خاندان کی وراثت کے امین ہیں ہم انہی کے نمک خوار ہیں،اس لئے اس پر زیادہ حق بھی آپ کا ھے۔تاریخ کی شہادت موجود ہے کہ امیر آف بہاول پور نواب صلاح الدین عباسی صاحب نے اپنے سابقہ ادوارمیں حلقے کی نمائندگی کامنفرد انداز میں حق ادا کیا۔(اس کی کئی مثالیں یہاں دی جا سکتی ھیں،مگر صفحات کی کمی کی وجہ سے اسے رہنے دیتا ہوں)
بہاول عباس خان عباسی کی ہار بنتی نہیں تھی،جب کہ ان کی کامیابی کے لئے نامور دینی شخصیات میدان میں اتریں اور اپنے حلقہ اثر سے مخاطب ہو کر ووٹ مانگا۔ان میں چند حضرات کاذکر کرنا مناسب سمجھتا ہوں۔جمعیت علماء اسلام نظریاتی پاکستان کے مرکزی صدر مولانا میاں اجمل قادری،جمعیت علمائے اسلام پاکستان کے مرکزی نائب امیر مولانا حبیب الرحمن درخواستی،اسی طرح اوچ کے گدی نشین مخدوم سید زمرد حسین نقوی البخاری،مخدوم سید ظفر حسین گیلانی اسی طرح ضلع بہاول پور کے نامور سیاسی لوگ سابق وفاقی وزیر چوہدری طارق بشیر چیمہ، سابق ایم این اے سردار ملک عامر یار وارن، سابق ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی شہزادہ عثمان داود خان عباسی، سابق ایم پی اے سردار جہاں زیب وارن، سابق سینیٹر سعود مجید،سابق ایم این اے عارف عزیز شیخ، ایم پی اے حسن عسکری شیخ،جماعت اسلامی بہاول پور کے امیدوار ایم پی اے سید ذیشان اختر،ایم پی اے گزین خان عباسی،خواجہ معین الدین کوریجہ،میاں محمد الیاس ایاز، سردار فیض احمد خان خاکوانی،مہر مشتاق احمد خان ایڈووکیٹ، سردار عمیر عبداللہ خان ڈاہر،شہزاد سہیل خان خاکوانی،مرزا محمد نواز،صدر بار دیوان عبدالرشید، ڈاکٹر فیاض احمد،محمد سلیمان فاروقی،حاجی فدا حسین جٹھول، چوہدری محمد برہان، سابق کونسلر چوہدری محمد شہزاد،حکیم محمد حسنین سمیت متعدد دینی،علمی،ادبی اور سماجی شخصیات،اسی طرح درجنوں برادریوں جن میں عباسی برادری،ڈاہر برادری،قاضی برادری،قریشی برادری،پٹھان برادری،بھاٹ برادری،کھوکھر برادری،بلوچ برادری،لوہار برادری، شیخ برادری،بھٹہ برادری اور سید برادری کے علاوہ مختلف مکاتب فکر ومسالک کے نمائندہ افراد اور نامور خانوادوں نے ان کی حمایت کا اعلان کیا اور دامے درمے قدمے سخنے ان کے ساتھ کھڑے رہے۔اسی طرح نواب صاحب کی حمایت میں مقامی وعلاقائی دینی، علمی اور سماجی ادارے:ادارہ تفہیم الاسلام، مجلس خدام اہل حدیث پاکستان،جمعیت اہل حدیث، منہاج القرآن، کمبوہ ویلفئیر ایسوسی ایشن وغیرہ وغیرہ پیش پیش رہے اور اپنی حمایت کے لئے بعض نے پریس کانفرنسیں کیں اور کچھ نے صادق گڑھ پیلس ڈیرہ نواب صاحب میں جا کر عالی مرتبت نواب صلاح الدین عباسی صاحب کو اپنی حمایت کا یقین دلایا۔ پورے وثوق سے ہم کہتے ہیں کہ ان حالات میں پرنس بہاول عباس خان عباسی کی ہار بنتی نہیں تھی۔

بہرحال بہاول عباس خان عباسی کی ہمت اور حوصلے کی داد دینی چاہیے۔۔وہ دوسری مرتبہ ہرائے گئے،لیکن ان کے حوصلے بلند ہیں،وہ لندن سے پڑھے ہوئے ہیں، مگر اپنے خاندان کی روایات کے امین ثابت ہوئے،انہوں نے الیکشن مہم کے دوران اپنی تقاریر میں علاقے کے لوگوں کا درد بانٹا، انہیں اپنے درمیان پا کر لوگ نواب صلاح الدین عباسی کا جلوہ محسوس کرتے رہے۔اپنی تقاریر میں انہوں نے ایک ادیب کے مقالات کی طرح اپنے جذبات لوگوں کی ایک کثیر تعداد کے دل ودماغ میں اتارے اور انہیں اپنے حقوق کی جنگ لڑنے پر آمادہ کیا۔

افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ

پرنس بہاول عباس خان عباسی کی ہار دراصل مفادات کے غلاموں کی تو جیت ہے ہی لیکن اس سے علاقے کے عوام میں مایوسی بھی پھیلے گی اور ان کی پسماندگی میں اور اضافہ ہو گا،کیوں کہ جب کسی کا مینڈیٹ چھینا جاتا ہے تو عامةالناس میں حقوق کی جنگ لڑنے والوں کے حوصلے پست ہو جاتے ہیں،نتیجتاً عوامی غم وغصہ میں اضافہ ہوتا جاتا ہے اور وہ غلامی کی دلدل میں پھنستے جاتے ہیں اور نادیدہ قوتوں کے ہاتھوں محض کھلونا بن کر رہ جاتے ہیں۔۔زندہ وجاوید قومیں اپنے حقوق کو غصب نہیں ہونے دیتیں،بل کہ میدان عمل میں اتر کر چھین کر اپنے حقوق وصول کرتے ہیں،ان سطور کے ذریعے الیکشن کمیشن آف پاکستان سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ حلقہ این اے 166 کے انتخابی عمل کے نیتجے میں ہونے والی بے ضابطگیوں پر نوٹس لیں۔۔۔ورنہ ہم انہیں بھی اس جرم میں برابر کا شریک سمجھیں گے۔