انسداد منشیات مہم میں بہاول پور پولیس کتنی کامیاب ہے؟

How much Bahawalpur Police succeeded in the eradication of narcotics ?

تحریر: جمیلہ ناز خان (ایڈووکیٹ)

نشے کی لَت، ایسی خوف ناک لَت ہے ،جو نوجوان نسل کو گمراہی، مایوسی اور گناہ کے ایک ایسے دلدل میں دھکیل دیتی ہے، جہاں سے واپسی کا راستہ تقریباً ناممکن ہو جاتا ہے۔ نہ جانے کتنے گھرانوں کے چراغ اس لعنت کے سبب گُل ہو چُکے ہیں۔ منشّیات کے استعمال کی پہلی سیڑھی سگریٹ نوشی ہے، منشّیات فروش اور اُن کے آلۂ کار پہلے پہل نوجوانوں کو مفت منشّیات مہیّا کر کے، لت لگ جانے کے بعد منہگے داموں فروخت کرتے ہیں اور پھر یہ لَت ان نوجوانوں سے ہر جائز و ناجائز کام کروا لیتی ہے۔ اسی لیے مُلک میں جرائم اور بے راہ روی بڑھنے کی ایک بڑی وجہ منشّیات کا استعمال بھی ہے۔ ہمارے نوجوان اکثر و بیشتر معاشرتی ردعمل اور نامناسب رہنمائی کی وجہ سے نشے جیسی لعنت کو اپنا لیتے ہیں۔ اس الارمنگ صورت حال کا بروقت احساس کرتے ہوئے پنجاب کی نگران حکومت نے صوبہ بھر میں منشیات کی خرید و فروخت کرنے والے مافیا کے خلاف کریک ڈاؤن کرنے اور تعلیمی اداروں میں منشیات کے خاتمے کے لیے مربوط انداز میں موثر اقدامات اٹھانے کا حکم دیا ہے۔

بدقسمتی سے 15 سے 24 سال کی عُمر کے نوجوان لڑکے، لڑکیاں منشیات کی طرف زیادہ راغب ہو رہے ہیں اور ستم بالائے ستم یہ کہ ہمارے یہاں منشّیات کے عادی افراد کے علاج کے لیے ہسپتالوں کی تعداد بھی نہ ہونے کے برابر ہے اور جو ہیں، وہاں بھی سہولتیں ناکافی ہیں، جب کہ نجی اسپتالوں کا منہگا علاج ہر کسی کی دسترس میں نہیں۔

پاکستان میں انسدادِ منشّیات کے قوانین پر عمل درآمد کروانے اور اس مکروہ فعل میں ملوّث افراد کی سرکوبی کے لیے پولیس سمیت کئی دیگر ادارے سرگرمِ عمل تو ہیں، مگر مجموعی طور پر تاحال اس حوالے سے کوئی خاطر خواہ کامیابی سامنے نہیں آئی۔ تاہم یہ سماج دشمن عناصر اپنے مذموم عزائم کی تکمیل کے لیے خواہ کیسے ہی طریقے کیوں نہ ایجاد کر لیں، پولیس بھی ان موت کے سوداگروں کے تعاقب میں لگی ہی رہتی ہے اور اس حوالے سے صوبہ پنجاب کے دوسرے اضلاع کی نسبت بہاول پور پولیس کی کارکردگی کافی بہتر ہے۔

ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر بہاول پور سید محمد عباس نے اپنے عہدے کا چارج سنبھالتے ہی ضلع بھر میں منشّیات فروشوں کے خلاف زیرو ٹالرنس کے احکامات جاری کرتے ہوئے فورس کو واضح ہدایت دی کہ نوجوان نسل کی رگوں میں منشیات کی صُورت زہر گھولنے والوں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے۔ یہی نہیں بلکہ ڈی پی او بہاول پور سید محمد عباس نے منشیات کے عادی افراد کی بحالی کے لیے عملی اقدامات کرتے ہوئے پہلی مرتبہ  خصوصی اسکواڈ تشکیل دیا۔ اسکواڈ کا انچارج ایک سب انسپکٹر جب کہ چار کانسٹیبلز ٹیم کا حصہ ہیں۔ اسکواڈ نشے کے عادی افراد کو بہاول پور کے مختلف علاقوں سے اٹھا کر ان کو پولیس لائنز میں قائم عادی منشیات بحالی ہسپتال منتقل کرنے پر مامور ہے، جہاں پر ان افراد کو مفت رہائش، بہترین کھانا، دھوبی، ہیئر کٹنگ کی سہولیات میسر ہیں، نشے کے عادی افراد کا خصوصی طور پر علاج معالجہ کر کے ان کی زندگی کی طرف بحالی کو ممکن بنایا جاتا ہے، نشے کے عادی افراد کی بحالی کے بعد ان کے اہل خانہ کے سپرد کیا جاتا ہے، اس پورے عمل میں پولیس کو دیگر سرکاری و نیم سرکاری اداروں کا تعاون بھی حاصل ہے۔ ذرائع کے مطابق اپنے تمام اقدامات کے مکمل فالو اپ کے عمل کو یقینی بنانے کے لیے ڈی پی او بہاول پور بذات خود سادے کپڑوں میں اور عام سی گاڑی میں بیٹھ کر شہر کا گشت کرتے ہیں اور پولیس کے عام اہلکاروں سے خود رابطے میں رہتے ہوئے ان کا مورال بلند رکھتے ہیں۔

ڈی پی او بہاول پور نے ضلع بھر کے ایس ایچ اوز کو سپیشل ٹاسک کے ذریعے ٹیمیں تشکیل دے کر منشیات فروشوں کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی ہدایات جاری کی ہیں، جس کے نتیجے میں بہاول پور پولیس کی طرف سے منشیات کے خلاف مربوط مہم کا عمل کامیابی سے جاری ہے، گزشتہ دنوں شہر کی مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیات اور سول سوسائٹی سے وابستہ افراد پر مشتمل وفد نے بھی ڈی پی او سید محمد عباس سے ملاقات کر کے شہر کو پرامن بنانے اور منشیات فروشوں کے خلاف بھرپور کارروائیوں کے حوالے سے ان کو خراج تحسین پیش کیا اور بھرپور کارروائیاں کرنے پر بہاول پور پولیس کی کاوشوں کو سراہا تھا۔ شہریوں کے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے ڈی پی او بہاول پور نے ضلع کو منشیات جیسی لعنت سے پاک کرنے کے عزم کا اعادہ کیا، انہوں نے بہاول پور سے منشیات کو ختم کرنے میں ساتھ دینے پر میڈیا، سول سوسائٹی اور شہریوں کے فعال کردار کو سراہتے ہوئے ان کا شکریہ ادا کیا تھا۔

توقع ہے کہ انسداد منشّیات کے حوالے سے بہاول پور پولیس کا فعال کردار گھریلو تشدّد سے لے کر اسٹریٹ کرائمز تک اور معاشرے میں بڑے پیمانے پر منظم کرائمز کی شرح میں کمی لانے میں ضرور مددگار ثابت ہو گا۔ تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ معاشرے سے منشّیات جیسی لعنت کا قلع قمع کرنے کے لیے منشّیات فروشی میں ملوّث بڑی مچھلیوں کو بھی کیفرِ کردار تک پہنچایا جائے، تاکہ معاشرے سے اس ناسور کا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہو سکے۔ خامیوں و چیلنجز کے باوجود منشیات کی لعنت کے خلاف جنگ میں معاشرے کے تمام طبقات کو ساتھ ملانے اور عوام میں بیداری پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ مل کر کام کرنے اور ایک معاشرے اور والدین کے طور پر ذمہ داری نبھا کر، ہم تعلیمی اداروں سے منشیات کے خاتمے اور ایک روشن مستقبل بنانے کی کوشش کر سکتے ہیں۔

آج کے نوجوان ہمارا آنے والا کل ہیں، اس لیے ان کو منشیات جیسی لعنت سے بچانے کے لیے پولیس کے ساتھ ساتھ معاشرے میں موجود مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کا بھی یہ فرض بنتا ہے کہ وہ خدمت خلق کے جذبے سے سرشار ہو کر اپنے اپنے علاقے، گلیوں، محلوں اور قصبات میں منشیات فروشوں کا قلع قمع کرنے کے لیے قانون و انصاف نافذ کرنے والے اداروں کا ساتھ دیں تاکہ ان معاشرتی ناسوروں کا خاتمہ ممکن ہو سکے۔ مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ منشیات کے خلاف کام کرنے والے یہ ادارے کسی بھی دباؤ کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے منشیات فروشوں کے خلاف بلا تفریق آپریشن کو یقینی بنائیں اور انہیں کڑی سے کڑی سزا دلوائیں تاکہ ان کے انجام کو دیکھتے ہوئے دیگر افراد اس انسانیت دشمن کاروبار کے بارے میں سوچ بھی نہ سکیں۔ نشے کے عادی افراد کی بحالی کیلئے بھی خاطر خواہ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ جو شہری نشے کی لت میں مبتلا ہوکر مایوسی کی زندگی گزار رہے ہیں ان میں زندگی کی روح پیدا ہو سکے اور وہ بھی اپنے آپ کو معاشرے کا کارآمد شہری سمجھتے ہوئے ملک و قوم کی ترقی اور خوش حالی میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔

جمیلہ ناز خان (ایڈووکیٹ ہائی کورٹ) شبیر لاء چیمبر، ڈسٹرکٹ کورٹس، بہاول پور