آذادی اور ہم

Five yeats plan for the development of Pakistan's economy

تحریر:۔۔۔ محمد سلیم بھٹی

پاکستان، جسکا مطلب ہے پاک لوگوں کا وطن
ایک طویل قربانیوں اور جدوجہد کا ثمر،ہزاروں جانوں کا نظرانہ،لاکھوں لوگوں کا بے گھر ہوکر ہجرت کرنا،بیٹیوں،بہنوں کی عزتوں کے جنازے،ماؤں کی گود کو اجاڑ کر سونا کرنا،  قیام پاکستان کا ذکر کریں تو یہ سب باتیں ہر پاکستانی کے ذہن میں آتی ہیں۔لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ سب آخر کیوں؟  ہمارے بزرگوں نے اپنی جان، مال اور عزتوں کی قربانی کیوں دی،؟ وہ کون سے مقاصد تھے جن کے حصول کے لئے برصغیر پاک وہند کے مسلمانوں نے پوری جدوجہد اور جذبے کے ساتھ مل کر جدوجہد کی اور پاکستان بنایا، کیا صرف انگریز سے آذادی مقصود تھی یا ہندو اور سکھوں کی سازشوں اور ریشہ دوانیوں سے بچنا تھا۔آخر وہ کیا وجوہات تھیں کہ مسلمانوں کے لئے ایک الگ وطن کا حصول ضروری تھا، کیا مسلمان بحیثیت قوم ہندوستان میں ہی رہ کر اپنے حقوق کا تحفظ نہیں کرسکتے تھے۔اور کیاآج 78 برس گزر جانے کے بعدآج ایٹمی قوت ہونے کے باوجود بھی کیا پاکستان میں بسنے والے مسلمان اور دیگر قومیتیں وہ حقوق حاصل کر چکے کہ جس کے حصول کے لئے قربانیاں دی تھیں، بے شمار باتیں ہیں،  خواب ہیں،  امنگیں ہیں،  خیالات ہیں، نظریات ہیں،  کیا یہ صرف کہنے کی باتیں ہیں، کیا واقعی ہندوستان میں بسنے والے مسلمانوں کو اس وقت بنیادی تعلیم،صحت کی معیاری سہولیات، روزگار کمانے کے مواقع، آذادی اظہار رائے، حصول انصاف، بنیادی انسانی حقوق کے حوالے سے کوئی مسائل درپیش تھے یا پھر یہ بھی اس وقت کی نام نہاد مسلم اشرافیہ کا انگریز کے ساتھ کوئی گٹھ جوڑ تھا،کہ مسلمانوں کو کلمہ طیبہ کے نام پریا پھر ان کے مسائل کے حوالے سے مذہبی اور جذباتی رنگ دیکر، آج کا پاکستان حاصل کرنا تھا، کیا ہندوستان کے شہر فرید کوٹ کی بستی بلبیر کے رہنے والے مولوی محمد عبداللہ جو اس وقت اپنے بچوں کے ساتھ پرسکون ذندگی گزار رہے تھے اور سرکار کی نوکری کرتے تھے، محکمہ مال میں قانونگو کے طور پر کام کرتے تھے،  اپنے پکے گھر میں رہائش پزیر تھے،  سواری کے لئے 2 گھوڑیوں کے مالک تھے، محلے میں جن کا رعب ودبدبہ تھا اور ہندوگھر کی خواتین ان کے آنے کا سن کر اپنے سروں کو ڈھانپ کر گھر کی ڈیوڑھی میں بھاگ جاتی تھیں ، کیا انہیں بھی کوئی سماجی،معاشی اور مذہبی مسائل لاحق تھے، جن کے بچے قائد اعظم اور آل انڈیا مسلم لیگ کے جلسے اور جلوسوں میں شامل رہتے تھے، وہ اور ان جیسے لاکھوں لوگ قیام پاکستان کے اعلان کے ساتھ اپنے گھر بار کو چھوڑ کر بے سروسامانی کی حالت میں ہجرت کر کے آگئے۔  ان سب لوگوں اور ان کی اولادوں کو گھر سے بے گھر ہوکر کیا ملا؟ کیا آج کے پاکستان میں وہ سب خواب پورے ہوئے جن کے پورا ہونے کی آس اور امید لیکروہ اپنے بوڑھے والدین،بچوں، بہنوں،  بیٹیوں کا قتل عام کرواتے ہوئے لٹے پٹے،  بھوکے پیاسے،  بے سروسامان،  پیدل یا بیل گاڑیوں پر سوار ہوکر پاکستان آبسے،  ان لوگوں نے پاکستان آنے کے لئے خون کے جو دریا عبور کئے، ان کی اولادیں اس سے آشنا ہیں کہ اًن کی مائیں اپنی اولاد کو گود میں لئے سلانے کے لئے یہی ہجرت کی باتیں کہانیاں بنا کر انہیں سناتی تھیں۔
کیا ان لوگوں نے اپنے جان،مال عزت اور آبرو کی قربانی اس لئے دی تھی کہ انگریز سامراج کی خدمت کرنے والے، چاپلوسی ملاں،پیادے،ہرکارے چند ٹکوں کی خاطر مسلمانوں کی گردنیں کٹوانے والے کالے انگریزوں کی غلامی میں چلے جائیں گے، ان حاشیہ بردار مفاد پرست عناصر نے مسلمانوں کا خون بہا کر غداری کے عوض انگریزوں سے انعامات اور القابات حاصل کر کے کوئی مخدوم بن بیٹھا، اور کوئی ٹوانہ،کوئی قریشی اور کوئی گیلانی، کوئی دولتانہ اور کوئی نواب۔ یہ چند مفاد پرست عناصر انگریز کی غلامی کے عوض آج پاکستان پر قابض ہیں۔یہ آج بھی اپنے چہرے بدل کر کبھی جمہوریت کا لبادہ اوڑھ کر اور کبھی آمریت کی آڑ میں پاکستان کے وسائل کو لوٹ کر نہ صرف معصوم عوام کا خون چوس رہے ہیں بلکہ پاکستان کے قومی وسائل کو بھی بے دردی سے لوٹ کھسوٹ کر پاکستان کو کمزور کرنے کی مزموم سازشوں میں مصروف عمل ہیں۔
پاکستان کو اس لئے بنایا گیا تھا کہ آج پاکستان ایک فلاحی اسلامی مملکت ہوگی، جہاں ہر فرد کو آئین کے مطابق قانون کی حکمرانی میں یکساں بنیادی انسانی حقوق حاصل ہوں گے، لیکن 78 سال ہوگئے آج بھی پاکستان میں انگریز کے بنائے ہوئے کالے قوانین موجود ہیں،جن کی موجودگی میں بنمیادی انسانی حقوق کی فراہمی تو درکنار تعلیم،صحت،رہائش اور روزگار کے یکلساں مواقع ہر فرد کو حاصل نہیں۔ آج بھی وطن عزیز میں لارڈ میکالے کا بنایا ہوا نظام تعلیم رائج ہے جو حکمران کے بیٹے کو حاکم اورمزدور کے بیٹے کو رعایا بنانے کے علاوہ کوئی کام نہیں کررہا،  بنیادی تعلیم کے علاوہ اعلیٰ تعلیم کا حصول ایک غریب اور متوسط طبقے کے بچے کے لئے ممکن نہیں،ہمارے سرکاری تعلیمی ادارے اساتذہ کے لئے اپنی بنائی ہوئی ٹیوشن سنٹرز کے لئے منڈی  بن چکے ہیں،پرائیویٹ اور سرکاری یونیورسٹیاں بھی ڈگریاں بیچتی نظر آرہی ہیں، غریب اور لاچار مریض کے لئے بنیادی مراکز صحت کے سنٹرز پر علاج و معالجہ کا حصول ایک خواب بن چکا ہے،ٹیچنگ اسپتالوں کے ڈاکٹرز کام کرنے کی بجائے پرائیویٹ اسپتالوں میں بے بس مریضوں کے خون کے آخری قطرے کو بھی نچوڑتے نظر آرہے ہیں، ارباب اختیار بھی اداروں کی بہتری کی بجائے ان میں موجود کرپٹ اور بدعنوان عناصر سے پیسے وصول کر اپنی جیبوں کو بھررہے ہیں، سرکاری اسپتالوں کی مشینری اور لیبارٹریاں جان بوجھ کر خراب کردی جاتی ہیں،تاکہ پرائیویٹ پریکٹس کامیاب کی جاسکے،
نظام عدل کی یہ حالت کہ کہ دنیا میں سب سے نیچا نام ہماری عدلیہ کا ہے، اگر مراعات اور تنخواہوں کا جائزہ لیں تو پاکستان کے ججوں اور عدالتی عملے کی تنخواہیں دنیا بھر میں سب سے ذیادہ نظر آتی ہیں لیکن مظلوم کو انصاف دینے کی بجائے ہر پیشی پر نئی پیشی دے دی جاتی ہے، اس سے بڑا المیہ کیا ہوگا کہ کسی فرد کو پھانسی تو پہلے دی جاچکی ہو اور عدلیہ انصاف کے تقاضے پورے کرتی ہوئی اس کو بری کردے اور پھر وکیل جج صاحب کا آگاہ کرے کہ جناب ملزم بری ہونے سے پہلے پھانسی چڑھ چکا ہے،غریب اور امیر کے لئے انصاف کے معیار الگ الگ ہوچکے ہیں،
دیکھا جائے تو پاکستان کو اللہ تعالی نے قدرتی ذخائر اور ہر چیز سے مالا مال کررکھا ہے، ہم ایک ذرعی ملک ہیں، ذراعت ہماری بنیادی معیشت ہے، لیکن ذراعت کو بہتر بنانے کی بجائے کسانوں اور نچلے درجے کے ذمین داروں کی بجائے بڑے ذمین داروں اور جاگیرداروں کا نوازنے کے لئے پالیسیاں بنائی جاتی ہیں۔دنیا کی بہترین کوالٹی کی کپاس کی پیداوار میں ہم سب سے آگے ہیں،480 ملین بیلز کپاس پیدا کرنے والا ملک اپنے ہی حکمرانوں کی بے حسی کا شکار ہے، کپاس کی بجائے گنے کے کاشتکاروں کو مراعات ذیادہ دی جارہی ہیں،جس سے چینی کی ملز مالکان کے تو مزے ہوگئے لیکن ہماری ٹیکسٹائل کی صنعت زوال کا شکار ہوئی اور ہم ذرمبادلہ کمانے سے بھی محروم ہوئے،دنیا کو گندم فرخت کرنے والے ملک کی ذراعت کو مافیا نے اس قدر نقصان پہنچایا کہ ہم اپنی ضرورت کی گندم بھی برآمد کرنے پر مجبور اور ذرمبادلہ کا بھی ضیاء کررہے ہیں، مکئی کی پیداوار ہماری دنیا بھر میں اعلی معیار کی ہے ہم صرف اسے کنٹرول کرلیں تو نہ صرف ملائشیا کو مکئی بیچ کر ذرکثیر ذرمبادلہ کی صورت میں حاصل کیا جاسکتا ہے بلکہ ہم خود بھی چاہیں تو مکئی کے ساتھ سورج مکھی کا تیل دنیا بھر کو سپلائی کرکے اپنی معاشی صورت حال کو چار چاند لگادیں۔ چاول اور آم کی پیداوار میں ہمارا ملک اس قدر خود کفیل ہے کہ ہم دنیا بھر کی دولت اکٹھی کرکے پاکستان لاسکتے ہیں، گزشتہ برس ہمارے ہاں آم کی پیداوار 125.000 میٹرک ٹن ہوئی  جس سے 100 ملین امریکی ڈالر سے ذائد آمدن حاصل ہوئی۔پھولوں کی پیداوار میں ہم یورپ بھر میں پسند کئے جاتے ہیں، لیکن ہائے رے بدعنوانی ہم سچے مسلمان کب بنیں گے، دودھ کی پیداوار میں پچھلے سال ہم 65.7 ملین ٹن دودھ پیدا کرکے دنیا بھر میں 5 ویں نمبر پر تھے لیکن ہائے ری قسمت ہم ملاوٹ ذدہ دودھ پیتے ہیں،بے ایمانی کا یہ عالم ہے کہ کسی کو گاؤں میں بھی خالص دودھ دستیاب نہیں۔
آج ہم ایٹمی اور میزائی ٹیکنالوجی کے حامل ملک ہونے کی حیثیت سے دنیا بھر میں اپنی پہچان رکھتے ہیں،دنیا کو پاکستانی ٹینک اور جہاز بیچ کر ذرکثیر ذر مبادلہ کی صورت میں کمارہے ہیں،ہماری اسلحہ ساز فیکٹریاں اپنی ضرورت کے ساتھ ساتھ دیگر ممالک کو بھی اسلحہ تیار کر کے فروخت کررہی ہیں،پاکستان کے سونے چاندی،پیتل اور تانبے کے ذخائر اتنی کثیر تعداد میں موجود ہیں، حال ہی میں طاہر مندوخیل میں کاپر کے ذخائر کے بارے بات ہورہی ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ ان تمام معاملات میں شفافیت لائی جائے اور چین،آسٹیریلیا اور امرکہ سمیت دیگر ممالک سے سیندک اور طاہر مندوخیل کے ساتھ ساتھ تھر کول کے ذخائر سے ملنے والی قیمتی دھاتوں  کے بارے بھی قوم کو بتایا جائے کہ ہمارے وسائل کہاں جارہے ہیں،
دریاؤں پر قدرتی ڈیم بنانے کی بجائے ہر سال کروڑہا کیوسک فٹ پانی ہم سیلاب اور سمندر کی نظر کردیتے ہیں اور کالا باغ ڈیم جیسے قومی اہمیت کے منصوبوں پر کام نہیں کرتے۔اگر ہم قدرتی پانی ذخیرہ کر کے استعمال کریں تو کروڑوں ایکڑ رقبہ کو سیراب کر کے کثیر ذرمبادلہ بھی حاصل کرسکتے ہیں، اور سستی بجلی پیدا کر کے اپنی عوام کو آسانیاں مہیا کرسکتے ہیں۔
ہماری بدقسمتی ہے کہ کبھی مارشل لاء اور کبھی بدعنوان اور نالائق حکمرانوں نے قومی مفادات کی بجائے کرپشن کر کے ذاتی مفادات کو اہمیت دی، معمولی معمولی رقوم کے لئے ہم کبھی ورلڈ بینک اور کبھی آئی ایم ایف کے آگے گھٹنے جوڑتے ہیں اور کبھی دوست ممالک کے آگے کشکول پھیلا کر قومی حمیت اور غیرت کو برباد کررہے ہوتے ہیں، ساتھ ہی غریب عوام کاٹیکسوں کے بوجھ میں جینا حرام کردیتے ہیں لیکن حکمران طبقات نہ ہی اپنے اخراجات  اور مراعات ختم کرتے ہیں اور نہ ہی نام نہاد اشرافیہ جو سول اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ساتھ اب جوڈیشل افسران کی بے جا مراعات کم کرتے ہیں، کتنے افسوس کی بات ہے بھیک مانگنے کے انداز میں بین الاقوامی اداروں سے قرضہ لیا تاکہ ہم اپنے قرضے کی قسط ادا کرسکیں،  لیکن ڈھٹائی کا یہ عالم ہے کہ صرف 17ویں سکیل کے چھوٹے سے اسسٹنٹ کمشنرز کی عیاشیوں کے لئے 2 دو کروڑ روپے کی نئی گاڑیاں خرید کراربوں روپے لکٹا دئے گئے۔ ان افسروں کی حقیقت یہ ہے کہ آلو پیاز کے نرخ کنٹرول کر نہیں سکتے بس عوامی وسائل پر عیاشی،عوام کے لئے بجلی گیس،اور پٹرول کی قیمتیں آسمان پر پہنچادی گئی ہیں، وزیروں مشیروں کو خدمت کی بجائے قومی وسائل کی لوٹ کھسوٹ پر مامور کردیا گیا ہے، ہم پوچھتے ہیں کہ ہم نے پاکستان ان کالے انگریزوں کے لئے بنایا تھا یا کہ عام انسانوں کے لئے،
آج اگر حضرت قائد اعظم محمد علی جناح اور شاعر مشرق علامہ اقبال دنیا میں موجود ہوتے تو اس پاکستان بنانے کی قوم سے معافی مانگ لیتے۔ لیکن نہ جانے ہمارے کون سے گناہ ہیں کہ جن کی سزا کے طور پر ہمیں بد سے بدترین حکمران مل رہے ہیں،نظریہ پاکستان نہ جانے کہاں گم ہوگیا ہے،غریبوں کی رضوانہ اور ذینب آج بھی انصاف کے حصول کے لئے فریادکررہی ہے۔ لیکن کوئی مسیحا نہیں۔ہم آج بھی ان ظالم حکمرانوں سے نجات اور آذادی کی جدوجہد کررہے ہیں، نہ جانے ہمیں حقیقی آذادی کب میسر ہو گی

Muhammad Saleem Bhatti
محمد سلیم بھٹی ڈپٹی انفارمیشن سیکریٹری، پی پی پی۔ جنوبی پنجاب