غزوہ بدر – معرکۂ حق و باطل

Ghazwah e Badar

تحریر: احمد علی محمودی

میدانِ بدر کا تاریخی پس منظر

بدر مدینہ منورہ سے تقریبا ً 80میل پر وادی یلیل میں ایک بیضوی شکل کا ساڑھے پا نچ میل لمبا اور ساڑھے چار میل چوڑا وسیع میدان ہے ۔ جو پہاڑوں میں گھرا ہو ا تھا ۔ یمن کا شام کی تجارتی شاہراہ اسی میدان سے گزرتی تھی ، مکہ اور مدینہ کا راستہ بھی اسی بدر سے ہو کر گزر تا تھا (مکہ سے مدینے جا نے والے آج بھی بذریعہ ٹیکسی اس سڑک سے جا سکتے ہیں )
بد ر کا نام پڑنے کی کئی وجو ہا ت بیان کی جا تی ہیں ۔
ایک یہ ہے کہ یہاں پر بدربن نضر بن کنانہ نے ایک کنواں کھدوایا تھا جس کا پا نی اس قدر شفاف تھا کہ اس میں چا ند کا عکس نظر آیا کر تاتھا ۔ کنواں گول شکل کا تھا اس لیے اس کا نام بدر پڑ گیا۔

میدان بدر کی فضیلت

بدر کے علاقے کی کئی لحاظ سے بڑی فضیلت ہے ، یہاں رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کی فتح کے لیے جو دعائیں کیں وہ تقریباً تمام کی تمام سیرت النبی ﷺ میں منقول ہیں ۔ بدر کے میدان میں ہی حضرت جبرائیل علیہ السلام نے فرشتوں کی ایک جماعت کے ساتھ مسلمانوں کے ساتھ مل کر کفار کیسا تھ جنگ کی

یو م الفرقان

غزوہ بدر تمام غزوات سے افضل اور اعلی غزوہ ہے ۔ جس روز یہ معرکہ ہو ا اسے یو م الفرقان کہا گیا ۔ جس میںاللہ نے مسلمانوں کو قلت اور دشمن کو کثرت کے با و جود اسلام اور اہل اسلام کو عزت بخشی اور مشرک اور اہل شرک کو ذلیل و رسواکیا۔

اہل بدر کی فضیلت

صحیح بخاری میں معاذ بن رفاع بدری سے روایت ہے کہ جبرائیل علیہ السلام نے حضور ﷺ سے پو چھا کہ آپ اپنے اہل بدر کو کیسا خیال کر تے ہیں ۔ آپﷺ نے فر ما یا ہم انہیں افضل تر ین مسلمان سمجھتے ہیں ۔ جبرائیل علیہ السلام نے کہا ’’ہم بدر میں شریک ہو نے والے فرشتوں کو اپنے میں ایسا ہی سمجھتے ہیں‘‘۔

غزوہ بدر کے لیے روانگی

جنگ بدر ہجرت کے انیسویں ماہ یعنی رمضان المبارک میں ہوئی ، مدینہ سے روانگی کے بارے میں کچھ اختلاف ہے بعض مؤرخین کا خیال ہے کہ 12رمضان کو مدینہ سے روانگی عمل میں آئی جبکہ بعض کے مطا بق 8 رمضان کو مدینہ سے نکلے تھے۔

وجو ہات غزوئہ بدر

غزوہ بدر کی وجہ یہ ہوئی کہ رجب ۲ ہجری میں نخلہ میں مسلمانوں کے ہا تھوں عمر و بن حضری کا اتفاقیہ قتل ہو گیا ۔ قریش نے مدینہ پر حملہ کے مصارف کے لیے ایک مشترکہ تجارتی کارواں ابوسفیان کی سربراہی میں روانہ کیا ۔ جب یہ قافلہ واپس آرہا تھا تو مسلمانوں نے اس قافلے پر چھا پہ مارنا منا سب خیال کیا تاکہ قافلہ جو رقم اور تجا رتی سامان لے کر مکہ جا رہا تھا وہ مسلمانوں کے خلاف جنگ کے لیے استعمال نہ ہو ۔ جد ید جنگی اصطلاح میں اسے گوریلا وار ہی کہا جائے گا۔ چو نکہ جنگ کا باقاعدہ اعلان نہیں ہو ا تھا ۔ اس لیے بہت سے مسلمان مدینہ میں ہی رہ گئے ، دوسری طرف ابو سفیان جب بدر کے قریب پہنچا اس نے ایک کنویں کے قریب اونٹوں کی لید کو کھول کر دیکھا تو اس میں کھجور کی گٹھلیاں تھیں وہ سمجھ گیا کہ مدینہ سے مسلمان اس علاقے میں آئے ہو ئے ہیں ، چنانچہ اس نے ضمضم بن عمر و غفاری کو تیزی سے سفر کر نے کی ہد ایت کے ساتھ مکہ بھیجا کہ قریش کو جا کر اطلا ع دے کہ مسلمان اس قافلے پر حملہ کر نے والے ہیں ۔ قریش نے بھی تیزی سے تیاری کی اور مدینہ کی طرف روانہ ہو گئے ۔ بدر کے مقام پر دونوں فوجیں آمنے سامنے ہو گئیں ۔ جبکہ ابو سفیان راستہ بدل کر سمندر کے کنارے کنارے چلتا ہوا مکہ پہنچ گیا اور وہاں سے قریش کی فوج کے سردار ابو جہل کو پیغام بھی بھیجا کہ ہم خیر یت سے مکہ پہنچ گئے ہیں ۔ لیکن ابو جہل واپسی کے لیے تیار نہ ہو ا اور جنگ نا گزیر ہوگئی۔

لشکروں کا پڑائو

بدر کا علا قہ زیا دہ تر ریت سے ڈھکا ہوا تھا ۔ مسلمان بدر پہنچے تو اللہ تائید انہیں حاصل تھی، بدر پر اس زور کی بارش ہوئی کہ پو را خطہ جل تھل ہو گیا ۔ لیکن مسلمانوں کا پڑائو جس جگہ تھا وہاں ریت زیا دہ ہو نے کی وجہ سے مسلمانوں کو چلنا پھر نا آسان ہو گیا ۔ دوسری طرف قریش نے جہاں پڑائو ڈالا تھا وہ جگہ نشیبی ہو نے کی وجہ سے کیچڑ سے بھر گئی اور قریش کے لیے چلنا بھی مشکل ہو گیا۔

سائبان کی تیاری

قریش مکہ جب مسلمانوں کے ساتھ جنگ کے لیے بدر کے قریب پہنچے تو مدینہ سے مسلمان بھی بدر کے میدان کے قریب پہنچ گئے ۔ جہاں ایک اونچی جگہ دیکھ کر حضرت سعد بن معاذ ؓ نے آپﷺ سے عر ض کی یا رسول اللہ ﷺ ہم آپ کے لیے ایک سائبان تیار کر نا چاہتے ہیں تاکہ جنگ کے دوران آپ یہاں تشریف رکھیں ۔ آپ کے پا س سوار یاں تیار رہیں گی اور پھر ہم دشمن سے مقابلہ کر یں گے ۔ اللہ نے ہمیں غلبہ عنایت فر ما یا اور دشمن پر فتح نصیب ہوئی تو ہما را مقصد پو را ہو جائے گا اور اگر کوئی دوسری صورت پیش آئی ( یعنی مسلمانوں کو شکست ہوئی تو آپ سوار ہو کر ان لو گوں سے مل جائیے جو ہمارے پیچھے رہ گئے ہیں ۔ (یعنی مدینے چلے جائیں) آپ ﷺ نے سعد بن معاذ ؓ کی تجو یز کو پسند کیا اور ان کی بھلائی کے لیے دعا کی ۔ اس کے بعد سائبان بنا یا گیا تھا وہاں اب مسجد عرش ہے عرش کا معنی سائبان ہے ۔
آپﷺ سائبان میں بیٹھے دعائوں مصروف تھے ۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی ہمراہ تھے ۔ دعا کر تے کر تے اچانک آپ کے سر مبارک کو جنبش ہوئی اور پھر آپﷺ نے فر مایا ’’ابو بکر خو ش ہو جائو ، تمہارے پاس اللہ کی مدد آگئی ، یہ جبرائیل ؑ ہیں گھوڑے کی باگ تھا مے اسے کھینچ رہے ہیں ۔ جس کے سا منے کے دانتوں پر غبار ہے (یعنی گھوڑا دور سے اور تیزی سے سفر کر تا ہو اپہنچا ہے۔)

معرکۂ بدر

امام بخاری اپنی صحیح میں حضرت عبد الرحمن بن عوفؓ سے روایت کر تے ہیں کہ بدر کی جنگ شروع ہوئی تو دولڑکے ان کے پاس آئے ، ایک نے کہا کہ چچا ہمیں ابو جہل دکھائیں ، حضرت عبد الرحمن بن عوف ؓ نے پو چھا بھتیجے تم پو چھ کر کیا کر و گے تو اس نے کہا کہ سنا ہے کہ ابوجہل حضور ﷺ کو گالی دیتا ہے ۔ اس خدا کی قسم جس کے قبضے میں میری جا ن ہے ۔ اگر میںنے اسے دیکھ لیا تو اس وقت تک نہیں چھوڑوں گاجب تک ہم میں سے ایک موت کے گھاٹ نہ اتر جائے ۔
حضرت عبد الرحمن بن عوف ؓ نے انہیں ابوجہل دکھا یا دونوں بچے تلواریں لے کر اس جانب بھا گے اور لمحوں کے اندر اسے زمین چاٹنے پر مجبور کر دیا اور آکر حضور ﷺ کو بتا یا ، یہ دونوں بچے معاذ بن عمر و ؓ بن جموع اور معوذ بن عفرا ؓ تھے ۔ حضور ﷺ نے جنگ کے بعد عبد اللہ بن مسعودؓ کو جنگ کے میدان میں بھیجا کہ ابوجہل کی تلا ش کرو ۔ ابن اسحاق کی سیر ت النبی ﷺ کے مطا بق ابو جہل کچھ سانس باقی تھے ۔ عبد اللہ بن مسعودؓ نے اس کی گردن پر پائوں رکھا تو ابوجہل نے کہا :او بکر یاں چرانے والے گڈریے تو ایک سخت پر چڑھا ہوا ہے ۔ اس کے بعد حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے ابو جہل کا سر کا ٹ کر رسول اکرم ﷺ کو پیش کر دیا ۔ قریش کا دوسرا سردار امیہ بن خلف اور اس کے بیٹے کو حضرت عبد الرحمن بن عوف ؓ نے گر فتا رکر لیا ۔ حضرت بلالؓ نے دیکھاتو انصار مدینہ کو یہ کہہ کر ساتھ لائے کہ یہ دشمن خدا مجھے مکہ میں اذیت دیا کر تا تھا ۔ حضرت بلالؓ اور انصاری نے مل کر امیہ بن خلف کو قتل کر دیا ۔
امیہ کے قتل کی حضور ﷺ نے پہلے ہی پیشگوئی کر دی تھی ۔ جنگ بدر میں عکا شہ ؓ بن محصن کی تلوار ٹوٹ گئی آپﷺ نے انہیں ایک لکڑی دی ،یہ لکڑی جیسے ہی انہوں نے پکڑی وہ ایک لمبی تلوار بن گئی ، جس سے وہ جنگوں میں لڑتے رہے ۔
حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے زما نہ خلا فت میں نبوت کے جھوٹے دعویدار طلیحہ نے شہید کیا تھا ۔ صحیح بخاری میں ہے ۔ جنگ بدر میںحضرت زبیر ؓ نے قریش کے ایک اور سردار عبید ہ بن سعید بن عاص کو سر سے پا ئوں تک لو ہے کی بنی زرہ میں ڈھکا ہو ا دیکھا اور اس کی صر ف آنکھیں نظر آرہی تھیں ۔ حضرت زبیر ؓ نے تاک کر اس کی آنکھ میں نیز ہ ما را ۔ جس سے وہ مر گیا ۔ تاہم نیز زرہ میں پھنس گیا اور بڑی مشکل سے نکالا ۔ یہ نیزہ حضور ﷺ نے آپؓ سے مانگ لیا ۔ آپﷺ کے بعد یہ نیزہ حضرت ابو بکر صدیق ؓ ، حضرت عمر ؓ ، حضرت عثمانؓ پھر حضر ت علیؓ کے پاس رہا ۔
مسلمانوں کی فتح کے بعد قریش کے ۲۴ سرداروں کی لا شیں ایک کنویں میں ڈال دی گئیں ۔ جبکہ ۷۰ گرفتار ہو ئے ۔ گرفتار ہو نے والوں میں حضرت عباس ؓ اور آپﷺ کے داماد حضرت زینبؓ کے شو ہر ابو العاص بن ربیع بھی شامل تھے ۔ حضرت عباس ؓ کہتے رہے کہ میں مسلمان ہوں مجھے قریش زبر دستی لائے تھے ۔ آپﷺ نے اپنے چچا حضرت عبا س ؓ سے پوچھا ما ل کہاں چھپا رکھا ہے ۔ حضرت عبا سؓ نے یہ سنتے ہی کہا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ مجھے یقین آگیا ہے کہ آپﷺ واقعی اللہ کے رسول ﷺ ہے ۔ کیونکہ اس مال کا میرے اور میری اہلیہ ام الفضل کے سوا کسی کو علم نہیں تھا ۔
ابو العاص بن ربیع کی رہائی کے لیے حضرت زینبؓ نے سونے کا وہ ہار روانہ کیا جو حضرت خدیجہ ؓ نے شادی کے مو قع پر آپ کو دیا تھا ۔ ہار دیکھتے ہی آپﷺ آبدیدہ ہو گئے اور فدیہ لیے بغیر انہیں چھوڑدیا، تاہم یہ وعدہ کیا کہ وہ حضرت زینب ؓ کو مدینہ واپس بھیج دیں گے ۔ انہوں نے وعدہ پو را کیا اور حضرت زینب ؓ کو آپﷺ کے پاس بھجوادیا۔

تاریخی علم دوست فیصلہ

آپﷺ نے وہ کفار جن کے پاس فدیہ کی ادائیگی کے لیے رقم نہ تھی انہیں یہ ذمہ داری سونپی کہ وہ ایک مخصوص عرصے تک مدینہ کے بچوں کو تعلیم دیں
، جب وہ پڑھنے لکھنے کے قابل ہوجائیں گے تو یہ بات ان کا فدیہ تصور کی جائے گی۔

بدر میں مد مقابل فوجوں کا تناسب

جو مسلمان غز وہ بدر میں شریک ہو ئے ان کی تعداد 300 سے زائد بتائی جا تی ہے ۔ بیشتر مؤرخین کا اتفاق ہے کہ تعداد 313 تھی ۔ ان میں سے 86 مہاجر تھے ۔ 61 کا تعلق قبیلہ او س سے تھا ۔ 170 قبیلہ خزرج سے تھے ، پورے لشکر میں سے صرف دو یا تین افراد کے پاس گھوڑے تھے باقی افراد کے لیے 70اونٹ تھے ۔ جن پر تین تین چار چار افراد باری باری سفر کر تے تھے صرف60 افراد کے پا س زریں تھیں ۔
دوسری جانب قریش مکہ کا لشکر تقریباً ایک ہزار جنگجو افراد پرمشتمل تھا ۔ جن میں سے 600 زرہ پو ش تھے ۔ ایک سو سواروں کا رسالہ بھی شامل تھا ۔ گویا مقابلہ بھی ایک تین کے درمیان تھا ۔ تین بھی وہ جو ایک کے مقابلے میںبہتر انداز میں مسلح تھے۔

فتح کی خو شخبری

غزوہ بدر کی عظیم الشان فتح کے بعد آنحضرت ﷺ نے حضرت عبد اللہ بن رواحہ ؓ کو عالیہ کے مقام پر بھیجاجوکہ مدینہ منورہ سے چند میل کے فاصلے پر ہے کہ وہاں کے لوگوں کو فتح کی خو شخبری سنائیں اور زید بن حارثہ ؓ کو سافلہ کے مقام کی طرف روانہ کیا کہ وہاں کے لوگوں کو فتح کی نو ید دیں۔

صلی اللہ علی النبی محمد