صحافیوں کے لیے 2025 سب سے ہلاکت خیز سال قرار, 31 ممالک میں 161 میڈیا ورکرز قتل
بھارت میں چھ، پاکستان اور ایکواڈور میں پانچ، بنگلہ دیش، ایران اور فلپائن میں چار، پیرو اور شام میں تین، جب کہ افغانستان، میں دو صحافی ہلاک ہوئے
جنیوا، 18 دسمبر 2025
پریس ایمبلم مہم کے مطابق سال 2025 صحافیوں کے لیے رواں صدی کا دوسرا سب سے زیادہ جان لیوا سال ثابت ہوا۔ ادارے کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق سال 2025 کے دوران دنیا کے اکتیس ممالک میں ایک سو اکسٹھ میڈیا کارکن ہلاک ہوئے، جب کہ سال 2024 میں یہ تعداد ایک سو اناسی تھی۔
علاقائی اعتبار سے مشرقِ وسطیٰ سب سے زیادہ متاثر رہا، جہاں ستاسی میڈیا کارکن جان سے گئے۔ لاطینی امریکا میں پچیس، ایشیا میں بائیس، افریقہ میں پندرہ، یورپ میں دس اور امریکا میں دو صحافی ہلاک ہوئے۔ رپورٹ کے مطابق مجموعی ہلاکتوں میں سے دو تہائی سے زائد واقعات مسلح تنازعات والے علاقوں میں پیش آئے۔
غزہ میں صحافیوں کی بڑے پیمانے پر ہلاکتیں
غزہ کی پٹی میں کم از کم ساٹھ صحافی ہلاک ہوئے، جن میں سے تقریباً تمام اسرائیلی حملوں کا نشانہ بنے۔ سات اکتوبر دو ہزار تیئس کے بعد شروع ہونے والی جنگ کے دوران اب تک غزہ میں کم از کم دو سو اکیس فلسطینی میڈیا کارکن ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں دو ہزار تیئس میں اکیاسی، دو ہزار چوبیس میں اسی اور دو ہزار پچیس میں ساٹھ صحافی شامل ہیں۔
پریس ایمبلم مہم کے سربراہ نے کہا کہ یہ تنازعہ محض دو برس سے زائد عرصے میں دوسری جنگِ عظیم کے بعد صحافیوں کے لیے سب سے زیادہ جان لیوا ثابت ہوا ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ جنگی کارروائیوں کی مکمل اور آزادانہ تحقیقات کی جائیں تاکہ حالات کا تعین ہو سکے اور ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔ انہوں نے اس بات پر بھی افسوس کا اظہار کیا کہ عالمی صحافیوں کو اب تک غزہ میں داخلے کی اجازت نہیں دی گئی، جو ایک طویل عرصے پر محیط غیر معمولی پابندی ہے۔
ڈرون حملوں سے بڑھتا ہوا خطرہ
یوکرین اور روس کے درمیان جاری جنگ کے دوران نو صحافی ہلاک ہوئے۔ ان میں تین یوکرینی صحافی، ایک فرانسیسی صحافی یوکرین میں اور پانچ روسی صحافی سرحدی علاقوں میں ہلاک ہوئے۔ جدید، تیز رفتار اور ناقابلِ شناخت ڈرون طیاروں کے بڑھتے ہوئے استعمال نے جنگی رپورٹنگ کو مزید خطرناک بنا دیا ہے، جس کے باعث متاثرین تک رسائی بھی محدود ہو رہی ہے۔
یوکرین کے ایک صحافتی ادارے کے مطابق فروری دو ہزار بائیس میں روسی حملے کے آغاز کے بعد اب تک یوکرین میں مجموعی طور پر ایک سو بیس صحافی ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں وہ صحافی بھی شامل ہیں جو مسلح افواج میں خدمات انجام دے رہے تھے۔ روسی فوج میں شامل صحافیوں کی ہلاکتوں سے متعلق مستند اعداد و شمار دستیاب نہیں۔
یمن، میکسیکو اور سوڈان کی صورتحال
پریس ایمبلم مہم کے مطابق یمن میں پندرہ میڈیا کارکن ہلاک ہوئے، جن میں سے تیرہ دس ستمبر کو ایک فضائی حملے میں جان سے گئے۔ منشیات فروش گروہوں کے تشدد کے باعث میکسیکو بدستور صحافیوں کے لیے خطرناک ملک رہا، جہاں سال 2025 کے دوران نو صحافی قتل ہوئے۔
سوڈان میں جاری لڑائی کے باعث صورتِ حال مزید سنگین ہو گئی، جہاں کم از کم آٹھ سوڈانی میڈیا کارکن ہلاک ہوئے۔
رپورٹ کے مطابق بھارت میں چھ، پاکستان اور ایکواڈور میں پانچ، بنگلہ دیش، ایران اور فلپائن میں چار، پیرو اور شام میں تین، جب کہ افغانستان، کولمبیا، ہونڈوراس، عراق، لبنان، نائجیریا، جمہوریہ کانگو اور امریکا میں دو، دو صحافی ہلاک ہوئے۔ برازیل، گوئٹے مالا، ہیٹی، نیپال، سعودی عرب، صومالیہ، تنزانیہ، ترکی اور زمبابوے میں ایک، ایک صحافی کی ہلاکت رپورٹ ہوئی۔
عدم سزا اور تحفظ کے مطالبات
پریس ایمبلم مہم نے صحافیوں کے قتل کے واقعات میں عدم سزا کے تسلسل پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ادارے کے مطابق آزاد، غیر جانبدار اور مؤثر تحقیقات اور ذمہ داروں کے خلاف قانونی کارروائی کے فقدان کے باعث صحافیوں کے خلاف جرائم میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ پریس ایمبلم مہم نے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں صحافیوں کے تحفظ سے متعلق منعقدہ عالمی کانفرنس کی سفارشات کی حمایت کی ہے، جن میں اقوام متحدہ کی سرپرستی میں ایک بین الاقوامی تحقیقاتی کمیشن کے قیام، تنازعات والے علاقوں میں صحافیوں کے تحفظ کے لیے عالمی کنونشن کی منظوری اور بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ پریس ایمبلم کے اجرا کا مطالبہ شامل ہے۔
ادارے نے اس بات پر بھی تشویش ظاہر کی کہ ہراساں کیے جانے والے صحافیوں کی جانب سے محفوظ پناہ کے لیے انفرادی درخواستوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ افغانستان، کیمرون، شام، ترکی اور سوڈان سے تعلق رکھنے والے صحافیوں نے مدد کے لیے ادارے سے رجوع کیا ہے۔ پریس ایمبلم مہم کے سربراہ کے مطابق بدقسمتی سے جمہوری ممالک بھی ایسی درخواستوں کے حوالے سے سخت رویہ اختیار کر رہے ہیں اور خطرے سے دوچار صحافیوں کو پناہ کی درخواستوں میں اکثر مستردی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جو ایک نہایت تشویشناک رجحان ہے۔
پریس ایمبلم مہم کے مطابق ادارہ اپنے اعداد و شمار میں تمام ہلاک ہونے والے صحافیوں کو شامل کرتا ہے، خواہ ان کی ہلاکت کا براہِ راست تعلق ان کی پیشہ ورانہ سرگرمیوں سے ثابت ہو یا نہیں، کیونکہ آزاد اور جامع تحقیقات کے بغیر اکثر یہ طے کرنا ممکن نہیں ہوتا کہ کسی صحافی کو اس کے کام کے باعث نشانہ بنایا گیا یا نہیں۔

