ہمارا مزدور
یوم مئی، دنیا یوم مئی کو مزدور کی اہمیت اور اس کے حقوق کے حوالے سے مناتی ہے، اسلام بھی مزدور اور اس کے حقوق وفرائض کے حوالے سے بہت واضح احکامات رکھتا ہے، لیکن افسوس پاکستان جیسے ملک میں جو اسلام کے نام پر دنیا کے نقشے پر وجود میں آیانہ ہی عالمی قوانین کی کوئی اہمیت ہے اور نہ ہی اسلامی احکامات کے حوالے سے کوئی پیش رفت ہے،شکاگو کے مزدوروں نے اپنی آٹھ گھنٹے کی مزدوری کے وقت کے تعین اور اس کی قیمت کے ساتھ ساتھ مزدور کے حقوق کے حوالے سے جو جنگ اپنی خونی جدوجہد کے ذریعہ عالمی سامراج سے جیتی اس کے ثمرات سے مزدور نہ صرف پاکستان بلکہ تیسری دنیا کے بیشتر ترقی پزیر ممالک میں محروم ہے، کہنے کو پاکستان میں صنعتی مزدوروں کے ساتھ ساتھ کھیت اور کھلیانوں کے ساتھ ساتھ دیگر شعبوں میں بھی آئینی اور قانونی حقوق حاصل ہیں لیکن ہمارے ہاں ان قوانین پر عمل درآمد نہ ہونے سے مزدور کی ترقی اور خوشحالی کا خواب عملی جامہ نہیں پہن سکا، سرکاری شعبے کی صنعتیں اور محکمے ہوں یا پرائیویٹ صنعتی ادارے کوئی بھی مزدور کو اس کی مزدوری اور سہولتیں دینے کو تیار نہیں۔ عام مزدوروں کے ساتھ ساتھ خواتین ورکرز اور بچوں کی جبری مزدوری ایک عام بات ہے، حکمران طبقات اور سیاسی جماعتیں اپوزیشن میں ہوں تو اپنے مقاصد کی تکمیل کے لئے مزدوروں کو استعمال کرنے کے لئے ان کے حقوق کی بات بھی کرتی ہیں،ان کے حقوق کے حصول کے لئے ریلیاں بھی منعقد کریں گی لیکن جب بھی برسراقتدار آتی ہیں تو سب کے وعدے ہوا میں اًڑ جاتے ہیں
اسلام نے شکاگو کے مزدوروں کی تحریک سے پہلے ہی مزدور کی مزدوری اور اس کے حقوق وفرائض طے کردئے، اسلام تو حکم دیتا ہے کہ مزدور کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کردو،لیکن ہم عمل نہیں کرتے۔جہاں تک یوم مئی کا تعلق ہے پاکستان میں یہ دن بھی دیگر چھٹیوں کی طرح ایک چھٹی کا دن ہے،جسے لوگ گھروں میں آرام کرکے گزاردیتے ہیں اور سیاسی جماعتیں مزدور تنظیموں کے ساتھ ملکر اپنی سیاسی دکانداری چمکانے کے لئے استعمال کرتی ہیں۔جبکہ مزدور اس دن بھی تپتی دھوپ کے ریگزاروں میں اپنے بچوں کی روٹی کمانے کے لئے خون پسینہ ایک کررہا ہوتا ہے اسے معلوم بھی نہیں ہوتا کہ اس دن کوئی مزدوروں کا دن بھی ہے۔
گو کہ1953 ء کوپاکستان نے انٹرنیشنل لیبر آرگنازیشن کے قوانین پر عمل کرنے کے معاہدہ پر دستخط کردئے اور ہماری حکومت اپنے محکمہ محنت کے ذریعہ مزدوروں کو ان کے تمام قانونی حقوق دینے کی پابند ہے، کہ وہ مزدوروں کی صحت علاج ومعالجہ،تعلیم سمیت رہائشی کالونیاں بنا کر ان کے حقوق کا تحفظ کرے۔ قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو نے مزدوروں کی ترقی اور خوشحالی کے لئے بہت سے اقدامات اور قوانین وضح کئے، تاکہ مزدوروں کو نہ صرف کام کرنے کے لئے بہتر ماحول مہیا کیا جائے بلکہ مزدوروں کے ساتھ ساتھ ان کی فیملی کے اراکین کی تعلیم وترقی،صحت کی سہولیات کے ساتھ ساتھ مزدوروں کے لئے رہائشی کالونیوں کے منصوبے اور بعد میں آنے والے پیپلز پارٹی کی عوامی حکومتوں نے ان کی تنخواہوں میں اضافے کے اقدامات کے ذریعے مزدوروں کو ان کے حقوق دینے کی کوشش کی، لیکن پھر بھی ابھی بھی بہت کچھ کرنا باقی ہے
حکومت پاکستان نے آج تک انٹرنیشنل لیبرآ رگنائزیشن کنونشن 155 برائے پیشہ ورانہ تحفظ اور صحت اور کنونشن 187 برائے پروموشنل فریم ورک برائے پیشہ ورانہ تحفظ اور صحت کے قوانین کو بھی نہیں نافذ کیا۔سابق صدر آصف علی ذرداری نے 2010 ء میں 18ویں ترمیم کے ذریعہ صوبوں کو مزدوروں کے حقوق کے حوالے سے وفاقی اختیارات منتقل کردئے۔اس ضمن میں صوبوں میں کام ہونا ابھی باقی ہے۔پاکستان میں کان کنی کے مزدوروں کے لئے 1923 ء کا ایکٹ،ایمپلائیز اوکڈ ایج بینیفٹ ایکٹ1976 ء خواتین کے لئے کام کی جگہ پر ہراسمنٹ سے تحفظ ایکٹ 2010, ء، صنعتی تعلقات ایکٹ 2012 ء، مرچنٹ شپنگ ایکٹ2001 ء، بچوں کی نوکریوں سے متعلق ایکٹ1991 ء، بانڈڈ لیبر سسٹم ایکٹ 1992 ء اور فیکٹریز ایکٹ 1934 ء سمیت کوئی بہت سے قوانین موجود ہیں جنہیں آئینی تحفظ بھی حاصل ہے، 1973ء کے آئین کے آرٹیکل،1،17،18،25 اور 37 کے تحت مزدوروں کو تحفظ حاصل ہیں، لیکن بدقسمتی سے ان سب کے باوجود پاکستان میں مزدوروں کو ان کے آئینی حقوق دینے میں کوئی بھی ادارہ دلچسپی نہیں لیتا جسکی وجہ سے مزدور اور ان کی فیملیاں عدم تحفظ کا شکار ہیں،مزدور یونین کی تحریکوں کو سکتی سے کچلنے کا رواج عام ہے، جنرل ضیاٗ الحق کے مارشل لاء دور میں کالونی ٹیکسٹائل ملز ملتان میں مزدوروں کو سیدھے فائر مار کر حقوق مانگنے کی پاداش میں شہید کردیا گیا، اگر کبھی واپڈا،ٹیلی فون،ریلوے،پاکستان اسٹیل ملز،بینکوں یا پی آئی اے جیسے بڑے اداروں کے مزدور بھی احتجاج کریں تو ان کی مانگیں پوری کرنے کی بجائے انہیں نوکریوں سے بے دخل کردیا جاتا ہے،بلکہ انہیں فائرنگ کر کے شہید کردیا جاتا ہے، جس کی،مثالیں عام ہیں، پاکستان کا فیکٹریز ایکٹ 1934 بھی مکمل طور پر مزدوروں کو تحفظ فراہم کرنے میں بے بس نظر آتا ہے، کیونکہ یہ نہ صرف چھوٹے اداروں کے مزدوروں بلکہ ذرعی شعبہ میں کام کرنے والے مزدوروں کو بھی تحفظ فراہم نہیں کرتا۔
بلوچستان سمیت ملک بھر میں کان کنی کے شعبے میں کام کرنے والے مزدوروں کی ذندگیاں ہمیشہ داؤ پر لگی رہتی ہیں،کوئی ان کا پرسان حال نہیں، انتہائی نامسائد حالات میں غریب مزدور اپنی ذندگیاں داؤ پر لگا کر اپنے بچوں کے لئے روزی کمانے پر مجبور ہیں،حالانکہ 1923 ء کا بنا ہوا ایکٹ موجود ہے،مالکان اپنے کان کنی کے مزدوروں کو جانور سے بھی بدتر سلوک کرتے ہیں
آج بھی ہمارے وطن عزیز میں مزدور کی کم از کم تنخواہ 3200 روپے ماہانہ مقرر ہے،لیکن بھٹہ،مزدور ہوں یا سیکورٹی گارڈ،گھریلو ملازم ہوں یا دکانوں پر کام کرنے والے 18 سال سے کم عمر بچے،(بچوں کی ملازمت کا ایکٹ 1991 ءٗ) ہونے کے باوجود،،کورئیر کمپنی میں کام کرنے والے کارکن،ہوٹلوں کے بیرے ،پٹرول پمپ پر کام کرنے والے ورکر۔ اگر ہم جائزہ لیں تو ہمارے ملک کے بینکوں میں کام کرنے والے کلرک بھی صرف 28000 روپے ماہانہ پر کام کرنے پر مجبور ہیں، اور غربت سے نیچے کی لکیر کی ذندگی گزار کر پسماندگی کی گہرائیوں میں ڈوبے چلے جارہے ہیں، حالانکہ ہمارے ملک میں غیر تربیت یافتہ کارکنوں کی کم از کم اجرتوں کا آرڈیننس 1969 ء بھی موجود ہے، ہماری ریاست جو ّئینی طور پر اپنے شہریوں کے حقوق کے تحفظ کی ذمہ دار ہے اپنی آئینی ذمہ داریاں نہ پوری کر کے سامراجی ایجنڈے کے تحت غریب کو ذندہ درگور کئے ہوئے ہیں، ریاست کا کام ہے کہ اپنے شہریوں کے آئینی حقوق کا تحفظ ہر صورت کریتاکہ کام کرنے والے مزدوروں کی حالت ذار بہتر ہونے کے ساتھ ساتھ ملکی معیشت کو بھی استحکام حاصل ہو،کیوں کہ اگر مزدور خوشحال ہوگا تو صنعت بھی ترقی کرے گی، اور بین الاقوامی قوانین کا پاس کرنے سے پاکستان کا سوفٹ امیج بھی دنیا بھر کے سامنے ابھر کر آئے گا
محمد سلیم بھٹی
ڈپٹی انفارمیشن سیکریٹری
پاکستان پیپلز پارٹی۔جنوبی پنجاب