(Battle of Uhud) غزوہ احد کا واقعہ – 3 ہجری

غزوہ احد

غزوہ احد کے اسباب اور واقعات و نتائج

Allama-Ahmad-Ali-Mehmoodi
تحریر: احمد علی محمودی

غزوہ احد کا پس منظر

غزوہِ بدر میں قریش کی بدترین شکست اُن کے لیے کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا۔ پورے عرب میں اُن کی شہرت خاک میں مل گئی تھی۔ شکست کھانے کے بعد مشرکینِ مکہ نہایت غصے میں تھے اوروہ اپنی بے عزتی کا بدلہ لینا چاہتے تھے۔چنانچہ اُنہوں نے خفیہ طور پر جنگی تیاریاں زور شور سے جاری رکھیں۔ اس دوران اُنہوں نے مسلمانوں کے خلاف ہر طرف اپنی سازشوں کے جال بچھا دیے۔ ایک سال تک یہ جنگی تیاریاں جاری رہیں۔ اس مقصد کے لیے مال و دولت بھی اکٹھاکیا گیا۔ جنگ کے شعلے بھڑکانے میں ابوسفیان، اُس کی بیوی ہندہ اور ایک یہودی کعب الاشرف کے نام نمایاں ہیں۔ اسلامی تاریخ میں غزوہ احد حق و باطل کا دوسرا معرکہ ہونے کے لحاظ سے بڑی اہمیت کا حامل ہے‘ یہ غزوہ 3 ہجری میں پیش آیا، اس کی تاریخ کے بارے میں مختلف روایات ملتی ہیں‘کچھ کے نزدیک یہ واقعہ 3 شوال ، کچھ کے نزدیک 7 شوال ، بعض کے مطابق 11 شوال اور بعض کے نزدیک 15 شوال کو پیش آیا۔ البتہ اس کے دن پر سب متفق ہیں کہ یہ ہفتہ کے روز ہوا تھا۔ غزوہ احد میں مسلمانوں کی تعداد 700 تھی ، جس میں زرہ پوش صحابہ کرام 1000 تھے۔ قریش کا لشکر3000 سپاہیوں پر مشتمل تھا‘ جن میں 700 افراد زرہ پوش تھے۔ ان کے ساتھ 200 گھوڑے اور 300 اونٹ بھی تیار کیے گئے ۔ اس غزوے میں مسلمان نوجوان اور بچوں کا جذبہ قابل دید اورقابل تحسین تھا ۔ جب مدینہ سے باہر نکل کر حضور ﷺ نے فوج کا ایک مرتبہ پھر جائزہ لیا تولشکر اسلام میں 700 افراد میں صغیرالسِن بھی تھے۔ آپ ﷺ نے ان لڑکوں کو واپسی کا حکم دیا تو رافع نے جو خدیج کے بیٹے تھے ‘پنجوں کے بل کھڑے ہو کر اپنے دراز قد ہونے کا ثبوت پیش کرکے جنگ میں شامل رہنے کا جواز فراہم کیا اور جب سمرہ بن جندب کو صغیر سِن شمار کیا گیاتو وہ رونے لگے اور عرض کیا : یا رسول اﷲ ﷺ ! اگر رافع شریک جنگ ہو رہا ہے تو مجھے کیوں جنگ سے روکا جا رہا ہے جب کہ مَیں کشتی میں رافع کو پچھاڑ سکتا ہوں۔ اس طرح ان دونوں کی کشتی کروائی گئی اور سمرہ نے رافع کو پچھاڑ کر جنگ میں شریک ہونے کا اعزاز حاصل کرلیا۔

جنگ کی تیاری

اسلامی تاریخ میں غزوہ احد حق و باطل کا دوسرا معرکہ ہونے کے لحاظ سے بڑی اہمیت کا حامل ہے ۔ حضور ﷺ نے جنگ شروع ہونے سے قبل انصار و مہاجرین سے مشورہ کیا کہ شہر میں رہ کر دفاع کیا جائے یا باہر جا کر جنگ لڑی جائے۔ فیصلہ دوسری صورت میں ہوا یعنی باہر نکل کر جنگ لڑی جائے۔ چنانچہ 6 شوال کو نمازِ جمعہ کے بعد حضور ﷺ نے اپنے اصحاب ؓ کو استقامت کی تلقین کی اور 1000 کی فوج کے ساتھ مدینہ سے روانہ ہو گئے۔ اشواط کے مقام پر رئیس المنافقین عبد اللہ بن اُبی 300 سواروں کے ساتھ اسلامی لشکر سے علیحدہ ہو گیا اور بہانہ یہ بنایا کہ جنگ شہر کے اندر رہ کر لڑنے کا اُس کا مشورہ نہیں مانا گیا۔منافقین کے اس عمل سے مسلمانوں کو وقتی طور پر ایک دھچکا تو ضرور لگا مگر ان کے پائے ثبات میں لغزش نہ آئی اور ان کے شوق جہاد کو دو آتشہ کرکے منافقین کے مقاصد کو سبوتاژ کردیا۔ ہفتہ 7 شوال 3 ھ (23 مارچ 625ء ) کو دونوں فوجیں اُحد کے دامن میں آمنے سامنے آگئیں ۔ اُحد پہاڑ مسلمانوں کی پشت پر تھا ۔ وہاں ایک درّہ پر حضور ﷺ نے عبد اللہ بن جبیر ؓ کی قیادت میں پچاس تیر اندازوں کا ایک دستہ پہاڑی درّے پر متعین فرمایا اور اُنھیں فتح و شکست کسی بھی صورت میں درّہ نہ چھوڑنے کا حکم دیا۔ تاکہ پشت سے کوئی حملہ نہ کرسکے۔ اور اپنی تلوار حضرت ابُودجانہ ؓ کو مرحمت فرمائی ۔

واقعات

جنگ کا آغاز مشرکین کی طرف سے ہوا ‘ جب ابوعامر نے تیر اندازی کی ۔ اس مرحلہ پر نو افراد مشرکین کی طرف سے آئے جو سب کے سب قتل ہوئے۔ دوسرے مرحلے میں مشرکینِ مکہ نے اکٹھے ہوکر بھر پور حملہ کیا ۔ اس دوران اُن کی کچھ عورتیں ان کو اشعار سے اشتعال دلا رہی تھیں تاکہ وہ غزوہ بدر کی عبرتناک شکست کا داغ دھوسکیں ۔ ابتدا کی زبردست جنگ میں مسلمانوں نے مشرکین کے کئی لوگوں کو قتل کیا ‘ جس پر مشرکین فرار ہونے لگے۔ مسلمان یہ سمجھے کہ وہ جنگ جیت گئے ہیں ۔ چنانچہ پہاڑی درہ پر تعینات اصحاب ؓنے حضورﷺ کی یہ ہدایت فراموش کردی کہ درّہ کسی قیمت پر نہیں چھوڑنا ‘ انہوں نے درّہ چھوڑ کر میدان میں مالِ غنیمت اکٹھا کرنا شروع کر دیا ۔ صرف دس افراد درّہ پر باقی رہ گئے۔ خالد بن ولید (جو اس وقت مسلمان نہیں ہوئے تھے) نے موقع غنیمت جانتے ہوئے کوہِ اُحد کا چکر لگا کر درّہ پر قبضہ کر لیا اور مسلمانوں پر پیچھے سے یکدم وار کردیا ۔ اس ناگہانی حملے میں بہت سے مسلمان شہید ہوئے ‘ جن میں سرکارِ دو عالم ﷺ کے پیارے چچا سیدنا حضرت امیر حمزہؓ بھی شامل تھے ‘ یہ وقت مسلمانوں پر بہت کڑا تھا ‘ ایسا لگا کہ کفار کو فتح مل گئی ہے ۔ اسی اثنا میں یہ افواہ بھی پھیل گئی کہ حضرت محمد ﷺ شہید کر دیے گئے ہیں ۔ یہ سن کر اکثر اصحاب ؓنے ہمت ہار دی ۔ کچھ لوگ میدان جنگ سے فرار ہو گئے ۔ کچھ ارد گرد کی پہاڑیوں پر چڑھ گئے اور افسوس کرنے لگے کہ وہ عبد اللہ بن ابی کے ساتھ کیوں نہ چلے گئے ۔ کچھ لوگوں نے یہ سوچا کہ حضور ﷺ کے بعد زندگی کسی کام کی نہیں ‘ کچھ لوگ حضور ﷺ کے ساتھ رہ گئے اور آپ کی بھر پور حفاظت کی ۔ اس موقع پر حضور ﷺ نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو ایک تلوار بھی عنایت کی جو ‘ذو الفقار کے نام سے مشہور ہے۔ اس دوران حضور ﷺ کے داندان مبارک بھی شہید ہو ئے ۔ اس مشکل ترین صورتحال میں کچھ جانثاروں نے نبی کریم ﷺ کو اپنے گھیرے میں لے لیا اور مسلمانوں کو اکٹھا کرنا شروع کردیا ۔ جب مسلمانوں کو اکٹھا ہوتے ہوئے دیکھا تو ابوسفیان نے وہیں سے آواز لگائی کہ آج بدر کا حساب برابر ہو گیا ہے ‘ اب اگلے سال پھر بدر کے مقام پر لڑائی ہوگی اور کفار واپس مکہ اپنے گھروں کو چلے گئے ۔ ابو سفیان کی بیوی ہندہ اور اس کے ساتھ کچھ لوگوں نے مسلمان شہداء کے ناک اور کان کاٹے اور ہندہ نے حضرت حمزہؓ کا کلیجہ نکال کر چبایا ‘ جس کا نبی کریم ﷺ کو بے حد رنج رہا ‘ اس غزوہ میں بہت سی مسلم خواتین نے شرکت کی‘اُمّ المؤمنین حضرت عائشہؓ اور حضرت انسؓ کی والدہ حضرت اُمّ سلیمؓ نے زخمیوں کو پانی پلانے کا فریضہ سر انجام دیا ‘ وہ مشک بھر بھر کر لاتیں اور زخمیوں کوپانی پلاتی رہیں ۔ اس معرکہ میں بہت سے ایمان افروز واقعات پیش آئے ۔

حضرت حنظلہؓ اس معرکہ میں باطل پرستوں سے اپنے ایمانی جذبے سے مقابلہ کرتے ہوئے قریشی لشکر کے وسط میں جا پہنچے اور قریش کے سردار ابوسفیان کا کام تمام کرنے ہی والے تھے کہ پیچھے سے ان پر شداد نامی بدبخت نے وار کر دیا اور آپؓ شہادت سے سرفراز ہوئے‘ جب میدان جنگ تھم گیا تو اللہ کے محبوب ﷺ نے آپؓ کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ حنظلہؓ کو فرشتے غسل دے رہے ہیں ۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے دیکھا حضرت حنظلہ ؓ کے بالوں سے پانی کے قطرات موتیوں کی طرح ٹپک رہے تھے ۔ اسی واسطے حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ کو غسیل الملائکہ( جن کو فرشتوں نے غسل دیا ہے) کہا جاتا ہے۔

اہل اسلام کا پرچم سیدنا حضرت معصب بن عمیرؓ کے ہاتھ میں تھا ‘ ایک بدبخت آپؓ پر حملہ آور ہوا اور آپؓ کے دائیں ہاتھ پر اس طرح وار کیا کہ آپؓ کا دایاں ہاتھ شہید ہوگیا ‘ آپؓ نے پرچم اسلام کو دوسرے ہاتھ سے پکڑ لیا ‘ اُس بدبخت نے دوبارہ ضرب لگائی اور آپؓ کا دوسرا ہاتھ مبارک بھی تن سے جدا کر دیا‘ آپؓ نے پرچم اسلام کو اپنے سینے سے تھامے رکھا اور بلند آواز میں آیتِ مبارکہ پڑھی‘ آپؓ پر تیر سے وار کیا گیا جس سے آپؓ نے جام شہادت نوش فرمایا ۔

جب منافقوں نے حضور پاک ﷺ کے شہید ہونے کی افواہ پھیلائی تو ایک انصاری صحابیہؓ مدینہ پاک سے اُحد کی طرف نکل پڑیں ‘ راستے میں اُن کے والد کے شہید ہونے کی اُنہیں خبر ملی تو اس عاشق رسول ﷺ صحابیہ ؓنے کہا کہ مجھے رسول ﷺ کے بارے میں بتائیں‘ پھر ان صحابیہؓ کو ان کے شوہر اور بھائی کی شہادت کی خبر دی گئی تو انھوں نے یہی کہا مجھے اپنے رسول کریم ﷺ کے بارے میں جاننا ہے کہ وہ کس حال میں ہیں؟ جب انہیں بتایا گیا کہ رسول خدا ﷺ خیر و عافیت سے ہیں تو عرض کرنے لگیں کہ مجھے حبیب کریم ﷺ کا دیدار کرنے دو ‘ جب حضور پاک ﷺ کا دیدار نصیب ہوا تو انہیں سکون ہوا ۔

غزوہ احد میں حضرت قتادہ بن نعمانؓ کی آنکھ تیر لگنے سے باہر نکل آئی‘ حضرت قتادہؓ اپنی آنکھ ہاتھ میں اٹھائے بارگاہ کونین ﷺ میں حاضر ہوئے‘ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا: اے قتادہؓ! اگر تم چاہو تو صبر کرلو جنت تمہارے لیے ہے اور اگر تم چاہو تو آنکھ لوٹا دوں ‘ حضرت قتادہؓ نے عرض کیا : یا رسول اللہﷺ! یقیناً جنت بڑی جزا اور عظیم عطا الٰہی ہے، یا رسول اللہ ﷺ ایسا بھی تو ہو سکتا ہے کہ آپﷺ جنت بھی عطا فرما دیں اور آنکھ بھی لوٹا دیں‘ اللہ کے رسولﷺ نے اپنے دست ِرحمت سے اُن کی آنکھ کو اس کی جگہ پر رکھ دیا اور اُس آنکھ کی روشنی پہلے سے زیادہ ہوگئی ‘ پھر آپﷺ نے اُن کے لیے جنت کی دعا بھی فرمائی ۔

معرکہ اُحد میں جب حضرت عبداللہ بن حجشؓ کی تلوار ٹوٹ گئی تو آپؓ نے عرض کیا ! یا رسول اللہ ﷺ ! میری تلوار ٹوٹ گئی ہے تو اللہ کے محبوب کریم ﷺ نے اُنھیں کھجور کی چھڑی عطا فرمائی ‘ جب اُنہوں نے کھجور کی چھڑی اپنے ہاتھ میں لی تو وہ فوراً ہی تلوار بن گئی ۔

نتائج

غزوہ احد تاریخ اسلام کا بڑا نازک اور دلخراش معرکہ ہے ۔ اس غزوہ میں حضور ﷺ نے تیر اندازوں کو حکم دیا تھا کہ اُحد پہاڑ کے درّے پر کھڑے رہنا ‘ جب تک مَیں نہ کہوں ‘آپ نے اس درے سے نیچے نہیں اترنا ۔ ابتدائی جنگی کامیابی میں جب دشمن بھاگ گئے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ جنگ ختم ہوگئی
ہے اب اگر نیچے اتر جائیں اور اس درّے کو خالی چھوڑ دیں تو کوئی خطرہ نہیں ۔ یہ سمجھ کر وہ درّے سے نیچے اتر آئے ‘ دشمن نے یہ دیکھ کر کہ اب درّہ خالی ہے مسلمانوںپر بھرپور حملہ کر دیا ‘ جس سےجنگ کا نقشہ یکسر بدل کر رہ گیا۔ تمام محدثین اور دنیا بھر کے فاتحین نے جب غزوہ احد کا بغور تجزیہ کیا تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آئی کہ آقائے کریم ‘ رؤف و رحیم ﷺ کے حکم کے خلاف اجتہادی خطاکی وجہ سے یہ واقعہ پیش آیا۔ اس واقعہ سے یہ سبق ملتاہے کہ اطاعتِ امیر بہت اہم اور ضروری ہے ۔