سی پیک پاکستان اور چین کے درمیان باہمی تعاون کےنئے دور کا آغاز

Pak-China-Hand-flag

چینی تھنک ٹینک سی جی ٹی این کے ایک تازہ مضمون میں شائع حقائق

چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبہ( سی پیک) دونوں ممالک کے درمیان توانائی، صنعت، ثقافت، تجارت و کاروبارسمیت مختلف شعبوں میں تعاون کے نئے دور کا محرک ہے، سی پیک کے پہلے مرحلہ میں (2020۔2015) کے دوران باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت ٹرانسپورٹ کے بنیادی ڈھانچہ اور توانائی کے شعبوں میں عملدرآمد کی کامیاب  حکمت عملی کے تحت نمایاں پیش رفت ہوئی ہے۔ یہ حقائق چینی تھنک ٹینک سی جی ٹی این نے اپنے ایک تازہ مضمون میں شائع کئے ہیں۔ مضموں کے مطابق سی پیک کے پہلے مرحلہ کے منصوبوں کی قبل از وقت تکمیل سے روزگار کے 38 ہزار مواقع پیدا ہوئے جن میں سے مقامی سطح پر 75فیصد لوگوں کو روزگار حاصل ہوا۔ چین۔ پاکستان اقتصادی راہداری ایک تاریخی منصوبہ ہے جس نے 2013 میں اپنے آغاز سے اب تک 10 سال میں پاکستان میں عملی ثمرات مرتب کئے ہیں سی پیک سے دونوں  ممالک کے درمیان تعاون اور دوستی کے رشتے مضبوط سے مضبوط ترہونے کے ساتھ معاشی و تجارتی تعلقات کے نئے باب کا اغاز کیا ہے ، سی پیک سے پاکستان اور چین کے درمیان مفاہمت اور تعاون کے فروغ کے ساتھ ساتھ باہمی ثمرات حاصل ہوں گے، مستقبل مین زراعت، صنعت، جدت پذیری اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبوں میں مواقع وسیع ہوں گے جس سے دونوں ممالک کے عوام کو فائدہ پہنچے گا۔ مضمون میں ایک سڑک ایک خطہ کے تاریخی منصوبے سی پیک معاشی اور تجارتی مثبت اثرات پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔ مضمون میں گزشتہ ماہ پاکستان اور چین کے درمیان دوستی اور تعلقات کے حوالے سے ایک سروے کا بھی حوالہ دیا گیا ہے جس مین پاکستانیوں کی اکثریت (85 فیصد) نے چین کو پاکستان کا مضبوط، آزمودہ اوربا اعتماد دوست قرار دیا جس کی دوستی پاکستان کے لئے تمام موسموں میں یکساں اور پائیدار  رہی ہے۔ مضمون میں پاکستان اور چین کے درمیان گزشتہ چھ سال میں معاشی اور تجارتی تعاون کے اعدادوشمار کا احاطہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ2015  میں پاکستان اور چین کے درمیان دو طرفہ تجارتی حجم 18.93 ارب ڈالر تھا جس مین سلانہ بنیادوں پر 18.2 فیصد اضافہ ہو ا ہے۔ جنوری تا جون 2016 میں یہ تجارتی حجم 9.524 تھا جس میں سالانہ بنیادوں پر 9.1 فیصد اضافہ ریکارڈ ہوا۔ جنوری تا جولائی 2017 میں تجارتی حجم 11.53 ارب ڈالر تھا جس مین سلانہ بنیاد پر 6.4 فیصد اضافہ ہوا۔ 2018 میں دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی حجم  19.08 ارب ڈالر تھا جس میں سلانہ بنیادوں پر 5 فیصد کمی ہوئی۔2018 میں پاکستان اور چین کے درمیان دوطرفہ تجارت کا حجم 19.08 ارب ڈالر تھا جس میں سال بہ سال 5  فیصد کی کمیہوئی۔ جنوری سے دسمبر 2020 تک، پاکستان اور چین کے درمیان دوطرفہ تجارتی حجم 17.49 ارب ڈالر تھا، جس میں سال بہ سال 2.7  فیصد کی کمی ہوئی۔ جنوری سے دسمبر 2021  تک دوطرفہ تجارتی حجم 27.82  ارب ڈالر تھا جو سالانہ بنیادوں پر 59.1  فیصد زیادہ ہے۔ ان میں سے پاکستان کو چین کی برآمدات 24.23  ارب ڈالر تھیں جو سالانہ بنیادوںپر57.8  فیصداضافہ ظاہر کرتی ہے ۔ پاکستان کی چین کے لئے درآمدات 3.59  ارب  ڈالر تھیں جو کہ سال بہ سال 68.9  فیصد زیادہ ہیں۔ پاکستانی اعدادوشمار کے مطابق، چین مالی سال 2015  سے مسلسل چھ سالوں سے پاکستان کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار رہا ہے اور پاکستان کی درآمدات کا سب سے بڑا ذریعہ اور دوسری بڑی برآمدات کی منزل ہے۔ مالی سال 2019-2020  میں کل دوطرفہ تجارت 10.67 ارب  ڈالر تھی اور پاکستان اور چین کے درمیان تجارتی حجم پاکستان کے کل تجارتی حجم کا 16.7 فیصد تھا۔ سی پیک کے قیام کے بعد سے، پاکستان میں  بجلی کی کمی میں بڑی حد تک کمی آئی کیونکہ اس تاریخی راہداری  منصوبے میں توانائی اور بجلی کے10 سے زائد منصوبے شامل ہیں، جن میں ڈائو ونڈ پاور پراجیکٹ، تھر کول سے چلنے والا پاور سٹیشن، پورٹ قاسم کول سے چلنے والا پاور سٹیشن، کروٹ ہائیڈرو پاور سٹیشن، مٹیاری-لاہور  ڈی سی660  کے وی ٹرانسمیشن پراجیکٹ، سوکی کناری ہائیڈرو پاوراسٹیشن اور دیگر منصوبے شامل ہیں ۔ مضمون میں پاکستان بیورو آف سٹیٹکس کے اعدادوشمار بھی شامل کئے گئے ہیں جس کے مطابق جنوری 2022  تک سی پیک کے فریم ورک کے تحت مکمل ہونے والے توانائی کے منصوبوں کی کل پیداواری صلاحیت 5.32  ملین کلوواٹ تک پہنچ گئی۔ سی پیک کے امور پر پاکستانی وزیر اعظم کے سابق معاون خصوصی خالد منصور نے کہا کہ بجلی کی اس صلاحیت سے بڑی تعداد  میں گھریلو اور صنعتی صارفین کو بجلی فراہم کی گئی اور پاکستان کو بجلی کی طویل لوڈ شیڈنگ کی ابتر صورتحال  سے نجات دلانے میں مدد ملی۔ مٹیاری-لاہور ڈی سی 660  کے وی پاور ٹرانسمیشن پراجیکٹ مکمل ہو چکا ہے اور اس منصوبے سے جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ پاکستان میں بجلی کی ترسیل اور تقسیم کا مسئلہ حل ہوا ہے، پاور لائن کے نقصانات میں کمی آئی ہے  اور پاکستان میں بجلی کی ترسیل کے نیٹ ورک کو بہتر بنایا گیاہے۔ قراقرم ہائی وے اپ گریڈ اور تعمیر نو کے دوسرے مرحلے اور پشاور-کراچی ایکسپریس وے پروجیکٹ نے پاکستان اور چین کے درمیان اور پاکستان کے اندر رابطہ سڑکوں پر ٹریفک کی صلاحیت  بہتر ہوئیہے۔ مضمون میں وفاقی وزیر  منصوبہ بندی، ترقی اور خصوصی اقدامات احسن اقبال کے بیان کا بھی حوالہ دیا گیا ہے جن کا کہنا ہے  کہ سی پیک نے پاکستان کو متعدد عالمی معیار کی شاہراہوں کی تعمیر میں مدد فراہم کی ہے۔ پاکستان نے مشرقی، جنوبی اور شمالی خطوں کو ملانے والا ایک موثر اور تیز رفتار سڑکوں کا نیٹ ورک قائم ہوا ہے، جس سیشرقی اور جنوبی نیت ورک کو منسلک کرنے  اور پاکستان کی سیاحت کی صنعت کی ترقی کے  نئے مواقع پیدا کئے ہیں۔ سی پیک سے نوجوانوں کے لئے روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوئے ہیں جس کے حوالے سے مضمون میں کہا گیا ہے کہ سی پیک کے پہلے مرحلے (2015-2020) میں اہم پیشرفت ہوئی ہے، ٹرانسپورٹ کے بنیادی ڈھانچے اور توانائی کے شعبوں میں زیادہ تر  منصوبے کامیابی کے ساتھ  زیر تعمیر ہیں۔  پاکستان پلاننگ کمیشن کے نامکمل اعدادوشمار کے مطابق سی پیک کے پہلے مرحلے کے ابتدائیمنصوبوں سے روزگار کے  تقریبا 38,000  مواقع پیدا ہوئے جن میں سے 75  فیصد سے زیادہ مقامی ملازمتیں شامل ہیں۔  ان مواقع میں توانائی کے منصوبوں نے سب سے زیادہ ملازمتیں پیدا کیں جن کی تعداد 16,000  سے زیادہ ہیں جن میں پاکستانی ورکرز اور انجینئرزبھی شامل ہیں۔ اسی طرح  نقل و حمل کے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر سے تقریبا 13,000 ملازمتیں پیدا ہوئی ہیں۔ ان میں سے، کوریڈور پروجیکٹ کے تحت سب سے بڑے انفراسٹرکچر پروجیکٹ، پشاور-کراچی ایکسپریس وے (سکھر-ملتان سیکشن) سے9,800  پاکستانی مزدوروں کو روزگار فراہم کیا، اور قراقرم ہائی وے کی اپ گریڈنگ کے دوسرے مرحلے  اور تعمیر نو نے 2,071  مقامی لوگوں کو روزگار فراہم کیا۔  براہ راست روزگار کے علاوہ راہداری کے منصوبوں نے ہزاروں بلاواسطہ ملازمتیں بھی پیدا کی ہیں۔ مضمون مین کہا گیا ہے کہ  سی پیک منصوبہ 2015 میں پاکستان اور چین کی مشترکہ کوششوں سے گوادر پورٹ سے سی پیک منصوبے پر کامیابی سے عملدرآمد کیا گیا۔ آج کی گوادر بندرگاہ نہ صرف باضابطہ  طور پر فعال ہے، دنیا کی بڑی بندرگاہوں سے منسلک ہونے کا ہدف حاصل کر رہی ہے، بلکہ مقامی آبادی کے رہن سہن  اور ذریعہ معاش میں بھی بہتری آئی ہے۔ وفاقی  وزیر احسن اقبال کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ سی پیک کی تعمیر کے پہلے مرحلے میں قابل ذکر پیش رفت ہوئی ہے اور گوادر پورٹ میں بھی سی پیک  کی تعمیر میں بڑی پیش رفت ہوئی ہے۔ گوادر پورٹ فری زون ، سمندری پانی کو صاف کرنے کا پلانٹ، چین کی مدد سے ووکیشنل اور ٹیکنیکل کالجز، چائنا پاکستان فرینڈ شپ ہسپتال، چائنا پاکستان فقیر پرائمری سکول اور دیگر مکمل  اور زیر تعمیر منصوبوں، چین کی طرف سے گوادر کے عوام کے لیے سولر پاور سسٹم کے عطیہ کردہ آلات  سمیت تمام منصوبے مقامی سماجی اور اقتصادی ترقی کے فروغ کا ذریعہ ہیں۔ اگر معیشت کسی ملک کا نچوڑ ہے اور ثقافت کسی ملک کی روح ہے تو سی پیک منصوبہ ثقافتی تبادلوں کا دروازہ کھولنے کے مترادف ہے۔  پاکستان کے مشہور انگریزی اخبار ڈیلی ٹائمز میں ایک مضمون شائع ہوا ہے جس مین سی پیک  اقدام کے تحت، پاکستان اور چین ثقافتی اقدار، اصولوں اور ماڈلز کا احاطہ کیا گیا ہے۔ سی پیک پاک چین اقتصادی تعاون کی تاریخ کی تازہ ترین کوشش ہے۔ پاکستان اور چین سماجی و اقتصادی ماڈلز کے ساتھ ساتھ  ثقافتی اقدار کے تبادلہ کا بھی ذریعہ ہیں اور باہمی مفاہمتکو فروغ مل رہا ہے۔ مادی ثقافت کے لحاظ سے پاکستان اور چین ایک دوسرے کے ساتھ مصنوعات، اشیا اور وسائل کا تبادلہ کر رہے ہیں۔ غیر محسوس ثقافت میں خوراک، زبان، لباس، مذہب اور طرز زندگی شامل ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اقتصادی ترقی نے دونوں ملکوں کے درمیان سماجی روابط اور بندھنوں کو بھی مضبوط کیا ہے اور دونوں ممالک کے درمیان دوستی پروان چڑھی ہے۔ سی پیکمنصوبے کے چینی انجینئرز نے اپنا کام کرتے ہوئے مقامی افراد میں  چینی ثقافت کو متعارف کرایا ہے۔ اس کے علاوہ چینی انجینئرز  پاکستانی زبان اردو سیکھنے کے ساتھ ساتھ  پاکستانی عوام کی ثقافت اور رہن سہن کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں  تاکہ اپنے پاکستانی بھائیوں کے ساتھ آسانی سے کام کر سکیں۔ پاکستان اور چین کے درمیان عوام سے عوام اور ثقافتی تبادلوں کا ایک اہم پہلو روایتی کھانے بھی ہیں ۔ پاکستانی اکثر اپنے چینی ساتھیوں کے لیے گھر سے کھانا لاتے ہیں، چینی لوگ سمجھتے ہیں کہ پاکستانی بہت مہمان نواز ہیں۔ پاکستانی ساتھیوں کی طرف سے لائے گئے کھانوں سے لطف اندوز ہونے کے ساتھ ساتھ وہ ان کے ساتھ چینی خصوصی پکوانوں کا تعارف اور اشتراک بھی کرتے ہیں۔ پاکستان اور چین کے درمیان مختلف ثقافتی سرگرمیوں میں پاکستانی کمیونٹی بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہے جو دونوں ممالک کے عوام سے عوام کے مابین روابط کے فروغ کا اہم پہلو ہے۔   پاکستان نیشنل آرٹس کونسل  کے سابق ڈائریکٹر جمال شاہ نے سنکیانگ کلچرل فیسٹیول میں شرکت کے لیے ایک وفد کی قیادت کی۔ انہوں  نے کہا کہ اس موقع پر شاندار پرفارمنس پاکستان کی بھرپور ثقافت کی عکاسی کرتی تھی۔ چین میں زیر تعلیم پاکستانی طلبا ہر ثقافتی دن پر اپنی منفرد اور دلکش ثقافت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔مضمون میں کہا گیا ہے کہ دونوں ممالک مشکل کی گھڑی اور قدرتی آفات کے مواقع پر ایک دوسرے کے دکھ درد میں بڑھ چڑھ کر شریک ہوتے ہیں۔2008  میں چین کو وینچوان زلزلیکے موقع پر پاکستان نے فوری طور پر20 ہزارسے زائد خیمے چین کو عطیہ کیے۔ 2013 میں، پاکستان نے چین کے زلزلے سے متاثرہ علاقوں کو انسانی بنیادوں پر ایک ملین ڈالر کی امداد فراہم کی۔ 2022 کے موسم گرما میں جب پاکستان کو ایک غیر معمولی سیلاب کا سامنا کرنا پڑا۔ سی پیک کے تحت  سماجی اور لوگوں کے ذریعہ معاش کے تعاون کے فریم ورک کے تحت چین نے پاکستان کو حالیہ سیلاب کے دوران4  ہزارخیمے، 50 ہزار کمبل، 50 ہزار واٹر پروف سائبان اور دیگر امدادی سامان بھی فراہم کیا۔ چین کی ریڈ کراس سوسائٹی نے پاکستان ریڈ کریسنٹ سوسائٹی کو 3 لاکھ ڈالر کی ہنگامی نقد امداد بھی فراہم کی۔  مزید برآں چینی حکومت نے 3  ستمبر کو اعلان کیا کہ وہ پہلے سے فراہم کردہ ہنگامی امدادی سامان میں 100  ملین یوآن کے علاوہ 300  ملین یوآن کا اضافی امدادی سامان فراہم کرے گی۔ سویلین ریسکیو ٹیم قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے پاکستان گئی اور پاکستان میں چینی کمپنیوں نے آفت زدہ علاقوں میں سڑکوں اور پلوں کی مرمت کا بیڑہ اٹھایا۔ سی پیک نے نئے دور کا آغاز کرتے ہوئے  پاک چین تعاون اورباہمی  تبادلوں کی نئی راہیں کھول دی ہیں۔ سی پیک کی مشترکہ تعمیر کے ذریعے دونوں  ممالک اور معاشروں کے درمیان افہام و تفہیم اور تعاون کو فروغ ملے گا اور باہمی مفاد کو تقویت ملے گی۔ مجمون کے مطابق سی پیک جب اعلی معیار کی ترقی کے آئندہ مرحلے میں داخل ہو گا تو پاکستان اور چین کے درمیان مستقبل میں صنعت، زراعت، جدیدیت اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبوں میں تعاون کے  وسیع مواقع پیدا ہوں گے اور دونوں ممالک کے عوام اعلی معیار کی سہولیات سے مستفید ہوسکیں گے۔