کلاسیکل غزل کے چراغ آخر شب، نظم جدید کے سرخیل، عظیم شاعر، ترقی پسند دانش ور فیض احمد فیض کی 37ویں برسی آج عقیدت و احترام سے منائی جا رہی ہے
سیالکوٹ (نوائے احمد پور شرقیہ رپورٹ/ ہفتہ، 20 نومبر 2021ء) آج کلاسیکل غزل کے چراغ آخر شب، نظم جدید کے سرخیل، عظیم شاعر، ترقی پسند دانشور فیض احمد فیض کی یوم وفات ہے، فیض احمد فیض 13 فروری 1911ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے، انہوں نے ابتدائی تعلیم وہیں سے حاصل کی اور اعلیٰ تعلیم کیلئے گورنمنٹ کالج لاہور آ گئے، جہاں سے فیض نے بی اے آنرز عربی زبان و ادب اور انگریزی ادب میں ایم اے کیا، 1935ء میں فیض نے ایم اے او کالج علی گڑھ میں انگریزی ادب کے استاد کی حیثیت سے شمولیت اختیار کی، 1942ء میں فیض احمد فیض برطانوی فوج میں کیپٹن ہو گئے اور دوسری جنگ عظیم میں حصہ لیا، قیام پاکستان کے بعد ان پر راولپنڈی سازش کیس کا مشہور مقدمہ بھی ہوا اور انہیں قید وبند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں، فیض کی قید کا زمانہ ان کی شاعری میں ایک نیا نکھار لے کر آیا
کب یاد میں تیرا ساتھ نہیں
کب ہاتھ میں تیرا ہاتھ نہیں
صد شکر کہ اپنی راتوں میں
اب ہجر کی کوئی رات نہیں
فیض کے ایسے اشعار زمانہ قید کی ہی یاد ہیں، جنہوں نے فیض کو دنیائے ادب کا تابندہ ستارہ بنا دیا، فیض احمد فیض کو عربی، پنجابی، فارسی اور انگریزی پر عبور حاصل تھا، انہوں نے پاکستان کی اردو اور پنجابی فلموں کیلئے گیت بھی لکھے، فیض احمد فیض واحد پاکستانی شاعر ہیں جن کو چار بار ادب کے نوبل انعام کیلئے نامزد کیا گیا، انہیں 1962 میں لینن پیس پرائز سے بھی نوازا گیا، اس کے علاوہ انہیں نشان امتیاز، نگار ایوارڈ سمیت متعدد اعزازات سے نوازا گیا، فیض احمد فیض کا شمار ترقی پسند تحریک کے بانیوں میں ہوتا ہے اور انہیں شاعر انقلاب بھی کہا جاتا ہے، فیض کی شاعری پر پنجابی صوفی روایات اور سوشلزم کی چھاپ بھی نمایاں ہے، ان کے ناقدین ان پر لادین ہونے کا الزام لگاتے رہے، تاہم ان کی شاعری میں مذہب اور خصوصا مذہب اسلام پر اور نعتیہ کلام بھی ملتا ہے، ان کے اہم شعری مجموعوں میں نقش فریادی، دست صبا، زنداں نامہ، دستِ تہہِ سنگ، میرے دل میرے مسافر اور سروادیِ سینا شامل ہیں، فیض 20 نومبر 1984 کو لاہور میں انتقال کر گئے، اردو ادب رہتی دنیا تک ان کا ممنون رہے گا۔