کلبھوشن یادیو کے معاملہ پر قانون سازی کرکے بھارت کے مذموم عزائم ناکام بنا دیئے، وفاقی وزیر برائے قانون و انصاف ڈاکٹر بیرسٹر فروغ نسیم کی پارلیمانی سیکرٹری برائے قانون و انصاف ملیکہ بخاری کے ہمراہ پریس کانفرنس

Farogh Naseem

اسلام آباد۔19نومبر: وفاقی وزیر برائے قانون و انصاف ڈاکٹر بیرسٹر فروغ نسیم نے کہا ہے کہ کلبھوشن یادیو کے معاملہ پر قانون سازی کرکے بھارت کے مذموم عزائم ناکام بنا دیئے، حالیہ قانون سازی کے بعد جدید طریقہ سے ٹیکنالوجی پر مبنی مردم شماری ہوگی، الیکشن کمیشن قانون سازی کے بعد ای وی ایم کے ذریعے انتخابات کرانے کا پابند ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعہ کو یہاں پارلیمانی سیکرٹری برائے قانون و انصاف ملیکہ بخاری کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ کلبھوشن یادیو کا کیس ہمیں ورثہ میں ملا ہے، کلبھوشن یادیو کے لیے بنایا گیا قانون ایک فرد کے لیے نہیں ہے، اس معاملہ پر بھارت نے عالمی عدالت انصاف سے رجوع کیا، بھارت نے عالمی عدالت انصاف میں کلبھوشن یادیو کو بری کرنے کی اپیل کی تھی، پاکستان عالمی عدالت انصاف میں یہ کیس جیت چکا ہے، عالمی عدالت انصاف نے کہا اس معاملہ پر قانون سازی کی جائے جس کے تناظر میں یہ قانون سازی کی گئی، کسی نے کہا امریکا بھی عالمی عدالت انصاف کو نہیں مانتا، امریکا الگ ملک ہے، پاکستان ایک ذمہ دار ملک ہے۔ وزیر قانون نے کہا کہ ہم نے اس قانون سازی کے ذریعے بھارت کے ہاتھ کاٹ دیئے ہیں، تنقید کرنے والوں کو ادراک نہیں ہے، اگر ہم قانون نہ بناتے تو بھارت پاکستان کے خلاف عالمی عدالت انصاف میں توہین عدالت کا مقدمہ دائر کر دیتا اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پاکستان کے خلاف پابندیاں لگانے کی کوشش کرتا، ہم نے قانون سازی کرکے ان کے یہ مذموم مقاصد ناکام بنا دیئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کو سکیورٹی ریڈ لائنز کا خیال رکھنا چاہیے، وہ غلط معلومات پھیلا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کو اپنے دور حکومت میں مردم شماری کرانی چاہیے تھی، مسلم لیگ ن کے دور میں متحدہ قومی موومنٹ کے مطالبہ پر مردم شماری کا پانچ فیصد آڈٹ کرانے کا وعدہ کیا گیا لیکن بعد میں اس سے انکار کر دیا گیا، ایم کیو ایم نے گزشتہ ہونے والی مردم شماری کو بھی دوبارہ کرانے کا مطالبہ کیا، اس وقت دو راستے تھے کہ اس مردم شماری کو مسترد کر دیتے جس کے اثرات ہوتے یا پھر نئی مردم شماری کرائی جاتی، حالیہ قانون سازی کے بعد جدید طریقہ سے ٹیکنالوجی پر مبنی مردم شماری ہوگی۔ وزیر قانون نے کہا کہ پیپلز پارٹی چاہتی ہے کہ حیدر آباد میں یونیورسٹی نہیں بننی چاہیے، ہمارا موقف ہے کہ ملک بھر میں یونیورسٹیوں سمیت تعلیمی ادارے بننے چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن پر الیکٹرونک ووٹنگ مشین کا استعمال لازم ہے، ای وی ایم کے استعمال سے سو فیصد درستگی کا نہیں کہہ سکتے، پرانے طریقہ کار میں دہری مہر، غلط جگہ پر مہر لگانے کی شکایات سامنے آتی تھیںٍ، ای وی ایم پرانے طریقہ کار سے بہتر ہے، کسی نے کہا
کوئی ای وی ایم کا ڈبہ اٹھا لے تو ڈبے تو پہلے بھی اٹھائے جاتے تھے، ہماری دانست میں ای وی ایم زیادہ بہتر ہے۔ پارلیمانی سیکرٹری برائے قانون و انصاف ملیکہ بخاری نے کہا کہ ناقدین کی باتیں اور قیاس آرائیاں دم توڑ گئیں، ہم نے حکمت عملی سے وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں بہترین قانون سازی کی ہے، انسداد جنسی زیادتی قانون بنانے کا مقصد متاثرہ خواتین اور بچوں کے حقوق کا تحفظ یقینی بنانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پہلے سے موجود قانون سقم کا شکار تھا، نئے قانون کے تحت سپیشل انویسٹی گیشن یونٹ قائم کیے جائیں گے، ضلعی سطح پر ہسپتال میں اینٹی ریپ کرائسز سیل قائم کیے جائیں گے، ان ہسپتالوں میں تربیت یافتہ انویسٹیگیٹرز تعینات کیے جائیں گے، ڈپٹی کمشنر کی سربراہی میں کمیٹی قائم کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ شرمناک دو فنگر ٹیسٹ کو ختم کیا گیا، جنسی زیادتی کے ٹرائل ان کیمرہ ہوں گے۔ پارلیمانی سیکرٹری نے کہا کہ جنسی زیادتی سے متعلق قانون میں کیمیکل کے استعمال کی شق ختم کر دی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ متاثرہ خواتین و بچوں کی شناخت صیغہ راز میں رکھی جائے گی، مظلوم کو لیگل ایڈ مفت فراہم کی جائے گی، نیشنل سیکس اوفینڈر رجسٹر کا اجرائ کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ مسلم فیملی لائ کی شقوں میں ترمیم کرکے اہل تشیع خواتین کے حقوق اور طلاق کے معاملات میں بہتری لائی گئی ہے۔ پارلیمانی سیکرٹری نے کہا کہ ہم ملک کے کمزور طبقات کے ساتھ کھڑے ہیں، ہم نے شطرنج کی بساط پر وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں اپوزیشن کو شکست دی ہے، ہم نے باتوں سے نہیں عمل سے ثابت کیا ہے کہ ہم حقوق کی فراہمی اور قانون سازی میں سرفہرست ہیں۔ بعد میں سوالات کے جواب دیتے ہوئے وفاقی وزیر برائے قانون و انصاف ڈاکٹر بیرسٹر فروغ نسیم نے کہا کہ اپوزیشن کوئی قانون سازی ہونے نہیں دینا چاہتی، اپوزیشن پارلیمنٹ میں اجلاس سے قبل ماحول اچھا رکھنے کی بات کرتی ہے، ایوان میں ان کو بولنے کا پورا موقع ملتا ہے لیکن پھر بھی وہ بائیکاٹ کر جاتے ہیں، ان کا مقصد پارلیمانی کارروائی کو سبوتاڑ کرنا ہے، پارلیمنٹ سے منظور کیے گئے بلوں پر قومی اسمبلی اور سینیٹ کی قائمہ کمیٹیوں میں طویل بحث ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ میں عددی اکثریت سے قانون سازی ہوتی ہے، اسے غیرجمہوری کہنا نامناسب ہے۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن آزاد اور خودمختار ادارہ ہے اور وہ پارلیمنٹ سے منظور شدہ قاونین کے تحت انتخابات کرانے کا پابند ہے۔