بہاولپور میوزیم، ثقافتی روایتوں کا آئینہ دار

Bahawalpur museum

بہاولپور عجائب گھر، تاریخ و حال کے آئینہ میں (Bahawalpur museum)

تحریر: محمد زبیر ربانی، ڈائریکٹر بہاولپور میوزیم، بہاولپور

میوزیم کسی بھی خطہ کے تاریخی ورثہ کی حفاظت اور اسکی تعلیم و ترویج کیلئے اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ترقی یافتہ معاشروں میں میوزیم کی اہمیت مسلمہ ہے۔ علاقائی و قومی تاریخ اور ثقافت کو محفوظ رکھنے اور نئی نسل کو اس سے روشناس کرانے کیلئے زندہ قومیں عجائب گھر تعمیر کرتی ہیں جہاں نسل انسانی کی بتدریج ترقی، انکی خدمات، کارنامے اورعروج و زوال کی کہانی محفوظ ہوتی ہے۔انکا قیام متمدن اقوام کی پہچان اور انکے ورثہ و ثقافت کی بقاء و ارتقاء کی ضمانت ہیں۔ ان ہی خصوصیات کی بنا پر عجائب گھر مقامی، علاقائی اور قومی ثقافت و تاریخ کے تحفظ میں اہم اور کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔یہ انسانی نسلوں کے باہمی اور انسانی تاریخ کے تسلسل کے آئینہ دار اور تہذیب و تمدن کے امین ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسکے قیام کے ساتھ ساتھ اسکی حفاظت اور ترقی بھی قوموں کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔ میوزیم ایک ایسی عمارت یا ادارہ ہے جہاں تاریخی، سائنسی، سماجی و ثقافتی اہمیت کی حامل اشیاء لوگوں کو معلومات و تفریح فراہم کرنے کیلئے رکھی جاتی ہیں۔ پوری دنیا میں اپنی تاریخ و ثقافت اور ورثہ کو محفوظ رکھنے کیلئے میوزیم قائم کیے جاتے ہیں جہاں ہاتھ سے بنی اشیاء، نوادرات، زیورات، برتن، اوزار، آلات جراحی و حرب، مصوری و خطاطی کے نمونے، روزمرہ استعمال کی اشیاء اور انسانی زندگی سے متعلق مختلف چیزوں کو محفوظ رکھا جاتا ہے۔یہ میوزیمز ہی ہیں جو قدامت میں جدت کو روشناس کراتے ہیں اور بیک وقت ماضی کی کہانی کو حال کے ساتھ ساتھ مستقبل کے تناظر میں پیش کرتے ہیں تاکہ ماضی کو سامنے رکھتے ہوئے مستقبل کیلئے لائحہ عمل تیار کیا جاسکے اور ماضی کی غلطیوں کو دہرانے سے بچتے ہوئے مستقبل کو مزید تابناک بنایا جا سکے۔تاہم تاریخی حوالوں سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ شروع میں جتنے بھی میوزیمزقائم ہوئے وہ سب ذاتی نوعیت کے تھے جو مخیر حضرات یا اداروں نے اپنے لئے بنائے تھے اوروہاں عوام کا داخلہ ممنوع تھا۔عجائب گھروں کے قیام کے بارے میں قرین قیاس ہے کہ دنیا میں سب سے پہلامیوزیم تیسری صدی قبل مسیح میں مصرکی یونیورسٹی آف الیگزینڈریا میں وجود میں آیا جسکی تعمیرپٹو لیمی سوٹر نامی ایک تاریخ دان نے کی۔تیسری صدی قبل مسیح تیار ہونے والا یہ میوزیم دنیا بھر میں اب تک قائم ہونے والے ہزاروں عجائب گھروں کیلئے خشت اول ثابت ہوااور یوں آج دنیا بھر میں یہ عجائب گھرمقبول ترین مقامات کی حیثیت رکھتے ہیں جنہیں روزانہ کی بنیاد پر سینکڑوں لوگ وزٹ کرتے ہیں اور اپنی مٹتی ہوئی تہذیب و ثقافت کو محفوظ دیکھ کر طمانیت کے احساس سے سرشار ہوتے ہیں۔اقوام عالم میں قوموں کی ثقافت اور تاریخ کو اکھٹا کر نے اور انہیں آئندہ آنے والی نسلوں کیلئے محفوظ بنانے کا سلسلہ آج بھی زور و شور سے جاری ہے۔ دنیا میں ہزاروں عجائب گھر موجود ہیں جو قبل ازتاریخ، بودوباش، معیشت اور ابتدائی ایجادات کے ہیں۔ اقوام عا لم کی طرح پاکستان میں بھی تاریخ کو محفوظ کرنے کیلئے تقریباًتمام بڑے شہروں میں عجائب گھرموجود ہیں جن میں موجود ادبی، ثقافتی، تاریخی و مذہبی اشیا کا ذخیرہ لوگوں کی دلچسپی کا باعث ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس شعبے میں جدت آتی چلی گئی اور روائتی اشیا سے ہٹ کر متنوع شعبوں پر موضوعاتی میوزیم وجود میں آنے لگے جو پاکستان سمیت پوری دنیا میں لوگوں کو معلومات و تفریخ فراہم کرنے کے علاوہ تحقیقی مراکز کے طور پر بھی کام کر رہے ہیں جن میں آرٹ،کلچر، ملٹری، سپریم کورٹ، نیچرل ہسٹری، میری ٹائم، اسٹیٹ بنک اور دیگر کئی میوزیم شامل ہیں۔ علاوہ ازیں ملک میں قائم کئی نجی میوزیم و آرٹ گیلریاں بھی اس مقصد کے حصول کیلئے اپنا کردار اد کر رہی ہیں۔ مختلف شہروں میں کئی نجی عجائب گھر برسوں سے قائم ہیں۔ تاریخی حوالوں سے بھی یہ بات سامنے آتی ہے کہ ابتداء میں قائم ہونے والے تمام عجائب گھر ذاتی نوعیت کے تھے جو مخیر حضرات، سرکردہ خانوادوں اور اداروں نے اپنے لئے بنا رکھے تھے اور یہاں عوام کا داخلہ ممنوع تھا۔آراء یہ بھی ہیں کہ فرانس میں انقلاب کے دوران یا اسکے بعد عوام کو لورائی میوزیم کے ذریعے شاہی کلیکشن اور دیگر اشیاء تک رسائی دینے کا سلسلہ شروع ہوا اور ہر خاص و عام کو یہاں آنے کی اجازت دی گئی۔اسی طرح برٹش میوزیم 1759اور آکسفورڈ یونیورسٹی میں قائم اشمولین میوزیم بھی ابتدائی پبلک میوزیم میں شمار ہوتے ہیں۔ بہاولپور کا شمار بھی ان خوش نصیب علاقوں میں ہوتا ہے جہاں میوزیم کا قیام ریاستی دور میں ہی ہو چکا تھا۔ نواب صادق خان عباسی رابع (صبح صادق) نے ریاست بہاولپور میں 1886میں صادق ایجرٹن (ایس ای)کالج قائم کیا جو اس خطہ کا واحد کالج تھا۔ یہاں کے ایک انگریز پرنسپل سر ڈکنسن نے چولستان میں موجود آثار قدیمہ سے متعلق کافی ساری اشیاء خود جا کر جمع کیں اور انہیں اس کالج میں ایک میوزیم کی صورت میں محفوظ کیا جبکہ نواب سر صادق خان عباسی خامس نے 1926میں صادق گڑھ پیلس ڈیرہ نواب صاحب میں ایک عجائب گھر قائم کیا جہاں مختلف ادوارا ور ممالک کے سکے، ڈاک ٹکٹیں، تمغے، سلطان صلاح الدین ایوبی، نادر شاہ اور ٹیپو سلطان کی تلواریں، مقامی مصنوعات، دستکاریوں کے نمونے سمیت کئی اشیاء و نوادرات موجود تھیں۔ سلطانی میوزیم کا چارج نواب آف بھاولپور نے اپنے ولی عہد عباس خان عباسی کو دے رکھا تھا۔ اس شاہی میوزیم میں نوابین، انکے اہل خانہ، غیر ملکی شخصیات اور سرکاری و ذاتی مہمانوں کوداخلے کی اجازت تھی۔سر صادق خان عباسی نے عوام کو تفریح فراہم کرنے کیلئے بہاولپور میں 1940میں چڑیا گھر تعمیر کرایا۔ اس چڑیا گھر میں بھی ایک میوزیم قائم کیا گیا جس میں حنوط شدہ جانور اور پرندے اور دیگر کئی اشیاء رکھی گئیں۔ یہ میوزیم آج بھی بہاولپور کے چڑیا گھر میں موجود ہے۔

خطہ بہاولپور انسان کی ابتدائی، اجتماعی زندگی اور آثار قدیمہ کے حوالے سے خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ یہاں ہزاروں سال پرانی تہذیبوں کے آثار موجود ہیں۔یہ علاقہ دو تہذیوں کا مرکز رہا ہے۔ یہاں کئی تہذیبوں نے جنم لیا، پھلی پھولیں اور افتاد زمانہ کی نظر ہو گئیں۔آج سے تقریباً5000سال قبل ہاکڑہ تہذیب نے دریائے ہاکڑہ کی گزرگاہ کے اطراف جنم لیا۔ بہاولپور کے آثار قدیمہ انسانی تہذیب و تمدن کی عظیم الشان یادگاریں ہیں۔ بہاولپور ریجن جغرافیائی حوالے سے پنجابی، سندھی، سرائیکی، بلوچی اور بیکانیری و صحرائی ثقافت کا اہم مرکز رہا ہے۔ یہ خطہ ان علاقوں پر مشتمل ہے جہاں 712عیسوی میں محمد بن قاسم نے اپنی فتوحات کی داغ بیل ڈالی اور اس خطے کو اسلام کی روشنی سے منور کیا۔یہاں کے صحرائے چولستان میں درجنوں قلعوں کے آثار ملتے ہیں جن میں قلعہ ڈیراور کو عسکری و جغرافیائی حوالے سے بڑی اہمیت حاصل ہے۔ بہاولپور کی ان ہی جغرافیائی، تاریخی و ثقافتی پس منظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے 1976میں یہاں میوزیم قائم کیا گیا۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اسکی گیلریوں اور نوادرات میں اضافہ ہوتا رہا۔ اب تک اس میوزیم کی دس گیلریاں اور 05ہزار سے زائد نوادرات ہیں۔ان گیلریوں میں تحریک پاکستان گیلری، اسلامی فنون گیلری، آثار قدیمہ گیلری، سکہ جات گیلری، علاقائی تہذیب و تمدن گیلری، پارچات گیلری، مخطوطات و خطاطی گیلری، بہاولپور گیلری، چولستان چلڈرن سیکشن اور ماڈل میکنگ گیلری شامل ہیں۔ ان میں تحریک پاکستان گیلری میں مسلمانان برصغیر کے الگ وطن کے حصول کیلئے کی جانے والی تقریباْ دو سو سالہ جدوجہد کو تصویروں کی صورت میں آویزاں کیا گیا ہے جن میں پہلا واقعہ 1757میں نواب سراج الدولہ لے دور میں پیش آنے والی جنگ پلاسی کا ہے۔ اسکے بعد واقعاتی ترتیب وترتیب زمانی کو مدنظر رکھتے ہوئے قیام پاکستان کے واقعات و حالات کو منظم انداز میں اجاگر کیا گیا ہے۔ جبکہ اسلامی فنون گیلری میں اٹھارویں صدی کے فنون و دستکاریوں کو جگہ دی گئی ہے۔ اس گیلری میں اونٹ کی کھال اور ہاتھی دانت سے بنی اشیاء، کپڑے، زیورات اور دھاگہ سے تیار شدہ انواع و اقسام کے نوادرات موجود ہیں۔ گیلری کا ایک بڑا حصہ مسلمانوں کے زیر استعمال رہنے والے نیزے، ڈھالیں، تلوار، خنجر، زرہ بکتر، بندوقیں و توپیں مسلمانوں کی فتوحات اور جنگوں کی یاد دلاتے ہیں۔ لکڑی اور تانبے کی منقش چیزوں کا ذخیرہ بھی اسی گیلری میں موجود ہے۔ میوزیم کی آثار قدیمہ گیلری میں قبل از اسلام دور کی اشیاء کی تقسیم زمانہ قبل از تاریخ، گندھارا ٓرٹ اور ہندو آرٹ پر مشتمل ہے۔سکہ جات گیلری ریاستی تمغوں،قومی، بین الاقوامی اور ریاستی ڈاک ٹکٹوں اور سکوں پر مشتمل ہے۔ جبکہ علاقائی تہذیب و تمدن اور پارچات گیلری میں جنوبی پنجاب، بہالپور اور چولستان کی مقامی دستکاریوں کو نہایت عمدگی سے پیش کیا گیا ہے۔ خط نسخ، نستعلیق اور خط کوفی سمیت دیگر خطوط میں لکھے گئے قرآن پاک کے نسخے اور خطاطی کے شاہکار مخطوطات گیلری کا حصہ ہیں جبکہ ریاست بہاولپور کے آخری نواب سر صادق خان عباسی کو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے بہاولپور کے نام سے ایک گیلری قائم کی گئی تھی جو ریاست کے واقعات ا ور جاہ و جلال کوعکسی صورت میں نمایاں کر رہی ہے۔ میوزیم کے آخری دو سیکشن کو بچوں کے کام کیلئے وقف کیا گیا ہے۔ یہاں مستقل بنیادوں پر بچوں کے آرٹ ورک جگہ دی جاتی ہے۔ نیز اس خطہ کی معدوم ہوتی تاریخی عمارات کو ماڈلز کو ڈسپلے کیا گیا تھا۔

سماجی رویوں، اصولوں اور عقائد و رسم و رواج پر مشتمل عادات ہر علاقہ کا خاصہ ہوتی ہیں جنہیں اس خطے کی تہذیب و تمدن اور ثقافت کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ ہر ملک یا علاقہ اپنی مخصوص روایات، عادات، عقائد اور تہذیب و تمدن کا حامل ہوتا ہے جو اسے دیگر علاقوں سے منفرد بناتا ہے۔ یہ ثقافت اپنے خطہ یا ملک کی پوری دنیا میں پہچان کراتی ہے۔ ثقافت کو فروغ دینے میں قوم کی ترقی پوشیدہ ہوتی ہے۔ زندہ قومیں اپنی تاریخ، و ثقافت سے جڑی رہتی ہیں اور اپنی اعلیٰ روایات کو زندہ رکھتی ہیں جن سے انکے وجود کو دوام ملتا ہے۔ بہالپور میوزیم نے اپنا بڑا حصہ علاقائی ثقافت کیلئے وقف کیا ہوا ہے۔ ان گیلریوں میں تمام صوبوں سمیت بالخصوص جنوبی پنجاب اور صحرائے چولستان کی وہ تمام اشیاء زیر نمائش ہیں جو وزیٹرز کو یہاں کی بودو باش، فنون،دستکاریوں اور روایات سے متعارف کراتی ہیں۔ ریاست بہاولپور کی تابناک تاریخ، تحریک پاکستان کی جدوجہد آزادی کے سفر کی طویل داستان، قبل از اسلام تہذیبوں کے آثار و اشیاء، معاشی جدوجہد کی کہانی کے حامل سکے و کرنسی نوٹ سمیت چولستان کی ثقافت کے یہ حسین رنگ سیاحوں کو اپنی جانب متوجہ کرتے ہیں۔ بلا شبہ موجودہ دور میں سیاحت کے ذریعے ترقی کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ موجودہ حکومت نے سیاحت کی اہمیت کے پیش نظر جہاں پورے ملک میں قابل تحسین اقدامات کئے ہیں وہیں انہوں نے جنوبی پنجا ب کی اہمیت کے پیش نظر ثقافتی منصوبوں کی تکمیل کیلئے موئثر پیش رفت کی۔ بہاولپور میوزیم جنوبی پنجاب کی ثقافت کا امین اور یہاں کی روایات کا آئینہ دار ہے۔ اس پورے خطے میں یہ واحد میوزیم تاریخ، ثقافت اور تہذیب و تمدن کو اجاگر کرنے میں کلیدی کردار کا حامل ہے۔ میوزیم کی اہمیت اور اسکے کردار کو مدنظر رکھتے ہوئے سابق ڈائریکٹر حسین احمد مدنی نے گیلریوں کو توسیع دینے اور نواب سر صادق عباسی کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے ایک میموریل ہال و گیلری جیسے ترقیاتی منصوبوں کا آغاز کیا۔ ان منصوبوں کے ساتھ ساتھ انہوں نے نوادرات میں اضافہ بھی کیا جن میں نوا ب سر صادق عباسی خامس کے زیر استعمال رہنے والی دو گاڑیاں، شاہی بگھی سمیت متعدد دیگر اشیاء و سامان حر ب شامل ہیں۔ علاوہ ازیں انہوں نے ایک صدی پُرانا بھاپ سے چلنے والا انجن جو ہیڈ پنجند کی تعمیر میں استعمال ہونے والے تعمیراتی سامان و لیبر کی منتقلی کے فرائض انجام دیتا رہا ہے کو 2004میں بہاولپور میوزیم کا حصہ بنایا۔ 80ٹن سے وزن رکھنے والے اس سٹیم انجن نے سیاحوں اور وزیٹرز کو اپنی دیو ہیکل جسامت سے بھرپور متوجہ کیا۔حافظ حسین احمد مدنی کے دور میں شروع ہونے والے فرنٹ ایلویشن اور سر صادق محمد خان میموریل ہال و گیلری جیسے بڑے منصوبے جو کئی سالوں سے تشنہ تکمیل تھے اب وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بُزدار کی دلچسپی اور ہدایات کے بعد ان زیر تکمیل ترقیاتی منصوبوں پر سرعت سے کام جاری ہے۔ یہ منصوبہ جات 2022میں مکمل ہوں گے۔ ان ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل کے بعد بہاولپور میوزیم کی افادیت سہ چند ہو جائے گی۔ محققین اور سٹوڈنٹس کی آسانی کیلئے نوادرات کا ڈسپلے مزید خوبصورت اور اسان فہم بنایا جائے گا۔اپنی تکمیل کے بعد یہ عمارت وزیٹرز اور سیاحوں کیلئے کشش کا باعث بنے گی جس سے مقامی معیشت کو تقویت اور یہاں کی ثقافت کو فروغ حاصل ہو گا۔

Images of Bahawalpur Museum بہاولپور میوزیم کی تصاویر

bahawalpur museum image 1
علاقائی ثقافتی گیلری میں جامپور کا ارائشی فرنیچر
bahawalpur museum image 2
آثار قدیمہ گیلری میں ہڑپہ کی گھریلو استعمال کی اشیاء
bahawalpur museum image 3
گندھارا آرٹ کے مجسمے
bahawalpur museum image 4
کھجور کے پتوں سے بنی اشیاء
bahawalpur museum image 5
گندھارا آرٹ کے نمونے
bahawalpur museum image 6
bahawalpur museum image 7
bahawalpur museum image 8
سائیکل رکشہ
bahawalpur museum image 9
اخری نواب سر صادق خان عباسی خامس کے زیر استعمال رہنے والی لکڑی سے تیار کردہ فورڈ ویگن
bahawalpur museum image 10
میوزیم کے مرکزی گیٹ پر نصب ریاستی دور کی توپ
bahawalpur museum image 11
ایک صدی پرانا بھاپ سے چلنے والا انجن
bahawalpur museum image 12
نواب اف بہاولپور کی تین پہیوں والی گاڑی

Muhammad Zubair Rabbani
محمد زبیر ربانی، ڈائریکٹر بہاولپور میوزیم، بہاولپور